صحيح مسلم
كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا -- مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام
15. باب فَضْلِ السُّنَنِ الرَّاتِبَةِ قَبْلَ الْفَرَائِضِ وَبَعْدَهُنَّ وَبَيَانِ عَدَدِهِنَّ:
باب: سنتوں کی فضیلت اور ان کی گنتی کا بیان فرضوں سے پہلے اور ان کے بعد۔
حدیث نمبر: 1694
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ يَعْنِي سُلَيْمَانَ بْنَ حَيَّانَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَنْبَسَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ بِحَدِيثٍ يَتَسَارُّ إِلَيْهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أُمَّ حَبِيبَةَ ، تَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ صَلَّى اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، بُنِيَ لَهُ بِهِنَّ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ "، قَالَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ: فَمَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ عَنْبَسَةُ: فَمَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، وَقَالَ عَمْرُو بْنُ أَوْسٍ: مَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ عَنْبَسَةَ، وَقَالَ النُّعْمَانُ بْنُ سَالِمٍ: مَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ.
ابو خالد سلیمان بن حیان نے داود بن ابی سند سے حدیث بیان کی، انہوں نے نعمان بن سالم سے اور انھوں نے عمرہ بن اوس سے روایت کی، انھوں نے کہا: مجھے عنبسہ بن ابی سفیان نے اپنے مرض الموت میں ایک ایسی حدیث سنائی جس سے انتہائی خوشی حاصل ہوتی ہے، کہا: میں نے ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے سنا وہ کہتی تھیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا"جس نے ایک دن اور ایک رات میں بارہ رکعات ادا کیں اس کے لئے ان کے بدلے جنت میں ایک گھر بنا دیاجاتا ہے۔" ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب سے میں نے ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، میں نے انھیں کبھی ترک نہیں کیا۔ عنبسہ نے کہا: جب سے میں نے ان کے بارے میں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے سنا، میں نے انھیں کبھی ترک نہیں کیا۔ عمرو بن اوس نے کہا: جب سے میں نے ان کے بارے میں عنبسہ سے سنا، میں نے انھیں کبھی ترک نہیں کیا۔ نعمان بن سالم نے کہا: جب سے میں نے عمرو بن اوس سے ان کے بارے میں سنا، میں نے انھیں کبھی ترک نہیں کیا۔
عمرو بن اوس بیان کرتے ہیں کہ مجھے عنبسہ بن ابی سفیان نے اپنی مرض الموت میں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک خوش کن حدیث سنائی، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے دن، رات میں بارہ رکعت ادا کیں، اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں، جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنا ہے میں نے ان رکعات کو نہیں چھوڑا اور عنبسہ کہتے ہیں، جب سے میں نے ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے یہ حدیث سنی ہے، میں نے ان رکعات کو ترک نہیں کیا اور عمرو بن اوس کا بیان ہے کہ جب سے میں نے عنبسہ سے یہ روایت سنی ہے، میں نے ان رکعات کو نہیں چھوڑا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1141  
´سنن موکدہ کی بارہ رکعتوں کا بیان۔`
ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رات اور دن میں بارہ رکعتیں (سنن موکدہ) پڑھیں ۱؎، اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1141]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بارہ رکعت سے مراد ہی مؤکدہ سنتیں ہیں جن کی تفصیل گزشتہ حدیث میں بیان ہوئی ہے۔

(2)
جنت میں گھر تعمیر ہونا ان نمازوں کا اجر ہے۔
اگر دوسرے اعمال کی وجہ سے جنت میں داخل ہو بھی جائے تب بھی اس عمل کے ثواب پر خاص طور پر ایک گھر ملے گا۔

(3)
اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ سنت نمازیں پابندی سے ادا کرنے والے کے گناہ معاف ہوجایئں گے۔
جس کی وجہ سے وہ اللہ کی رحمت سے جنت میں داخل ہونے کا اہل ہوجائے گا۔
لہٰذا محض سستی اور بے پروائی کی وجہ سے سنتیں چھوڑ دینا بری بات ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1141   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1250  
´نفل نماز کے ابواب اور سنت کی رکعات کا بیان۔`
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ایک دن میں بارہ رکعتیں نفل پڑھے گا تو اس کے بدلے اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1250]
1250۔ اردو حاشیہ:
یہ بشارت فرائض سے پہلے اور بعد کی سنتوں سے متعلق ہے جنہیں سنن مؤکدہ یا سنن راتبہ کہا جاتا ہے۔ اس حدیث سے سنن مؤکدہ کی فضیلت واضح ہوتی ہے۔ ان بارہ رکعتوں کی تفصیل دیگر احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمائی ہے: چار رکعت ظہر سے پہلے، دو رکعت اس کے بعد، دو رکعت مغرب کے بعد، دو کعت عشاء کے بعد اور دو کعت نماز فجر سے پہلے۔ دیکھیے: [جامع الترمذي، الصلاة، حديث: 415]
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ظہر سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ دیکھیے: [صحيح بخاري، التطوع، حديث: 1172، 1180، وصحيح مسلم، صلاة المسافرين، حديث: 729]
اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص دن میں فرائض کے علاوہ دس رکعت ہی ادا کر لیتا ہے اس کے لیے بھی جنت میں گھر بنا دیا جاتا ہے۔ تاہم علماء اس کی بابت فرماتے ہیں کہ اگر ظہر نماز سے قبل اتنا وقت ہو کہ چار رکعت پڑھی جا سکتی ہوں تو چار رکعت ہی پڑھنی چاہئیں اور بہتر ہے کہ یہ دو رکعت کر کے ‎پڑھی جائیں، اگرچہ ایک سلام سے بھی پڑھنا جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1250   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1694  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
دن رات میں پانچ فرض نمازیں اسلام کا رکن رکین اور لازمہ ایمان ہیں،
جن کے بغیر ایمان کا قیام بقا ممکن نہیں،
لیکن ان کے علاوہ ان ہی کے آگے اور پیچھے کچھ رکعات پڑھنے کی ترغیب و تعلیم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے،
ان میں سے جن کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکیدی الفاظ فرمائے ہیں اور دوسروں کو ترغیب و تشویق دلانے کے ساتھ ساتھ آپﷺ نے عملاً ان کا خوب اہتمام فرمایا ہے تو ان کو سنن راتبہ یا سنن مؤکدہ کا نام دیا جاتا ہے اور اگر آپﷺ نے ان کی ترغیب نہیں دی یا زیادہ اہتمام نہیں کیا تو ان کو سنن غیرمؤکدہ یا نفل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
(2)
آئمہ اربعہ کا اس امر پر اتفاق ہے کہ دن رات میں بارہ رکعات یعنی دو رکعت فجر سے پہلے چار رکعات ظہر سے پہلے اور دو رکعت ظہر کے بعد دو رکعت مغرب کے بعد اور دو رکعت عشاء کے بعد سنن مؤکدہ ہیں اور ان کے سوا رکعات جن کا ذکر مختلف احادیث میں موجود ہے۔
وہ سنن غیر مؤکدہ اور نوافل ہیں جو انسان کے لیے اجرو ثواب کے حصول اور درجات و مراتب میں رفعت و بلندی کا باعث ہیں۔
(3)
فرضوں سے پہلے پڑھی جانے والی سنن مؤکدہ اور نوافل کا بظاہر مقصد یا حکمت و مصلحت یہ معلوم ہوتی ہے کہ فرض نماز جو اللہ تعالیٰ کے دربار عالیہ میں سرگوشی اور حضوری ہے اور مسجد میں اجتماعی طور پر ادا کی جاتی ہے اس میں مشغول ہونے سے پہلے انفرادی طور پر چند رکعات پڑھ کر دل کو دنیا کے مشاغل اور مصروفیات سے پھیر کر اللہ کے دربار سے کچھ آشنا اور مانوس کر لیا جائے تاکہ فرضوں کی ادائیگی میں پوری یکسوئی اور دلجمعی سے اللہ تعالیٰ سے راز ونیاز ہو سکے اور دل دنیا کے مشاغل میں ہی نہ الجھا رہے۔
(4)
فرضوں کے بعد پڑھے جانے والی سنن راتبہ یا نوافل کی بظاہر یہی حکمت اور مصلحت معلوم ہوتی ہے کہ فرض نماز کی ادائیگی میں جو کمی اور کوتاہی رہ گئی ہے اس کا کچھ ازالہ اور تدراک ہو جائے۔
(5)
ہمارے اسلاف کرام کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ جب ان کے سامنے کوئی تاکیدی یا ترغیبی فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم آتا تو حتی الوسع اس کی پابندی اور اہتمام کرتے تھے اس کے بارے میں کسی قسم کے تغافل یا تساہل اور سستی کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1694