صحيح مسلم
كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا -- مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام
26. باب الدُّعَاءِ فِي صَلاَةِ اللَّيْلِ وَقِيَامِهِ:
باب: نماز اور دعائے شب۔
حدیث نمبر: 1792
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ ، أَخْبَرَنَا الضَّحَّاكُ ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: بِتُّ لَيْلَةً عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ، فَقُلْتُ لَهَا: إِذَا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَيْقِظِينِي، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ الأَيْسَرِ فَأَخَذَ بِيَدِي فَجَعَلَنِي مِنْ شِقِّهِ الأَيْمَنِ، فَجَعَلْتُ إِذَا أَغْفَيْتُ يَأْخُذُ بِشَحْمَةِ أُذُنِي، قَالَ: " فَصَلَّى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، ثُمَّ احْتَبَى حَتَّى إِنِّي لَأَسْمَعُ نَفَسَهُ رَاقِدًا، فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ الْفَجْرُ، صَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ ".
ضحاک نے مخرمہ بن سلیمان سے، انھوں نے کریب مولیٰ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے ایک رات اپنی خالہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کے ہاں بسر کی، میں نے ان سے عرض کی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھیں تو آ پ مجھے بھی بیدار کردیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو میں آپ کی بائیں جانب کھڑا ہوگیا۔آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنی دائیں طرف میں کردیا، جب مجھے جھپکی آنے لگتی تو آپ میرے کان کی لو پکڑ لیتے، آپ نے گیارہ رکعتیں پڑھیں، پھر آپ نے کمر اور پنڈلیوں کے گرد کپڑا لپیٹ کر اسے سہارا بنا لیا (اور سوگئے) یہاں تک کہ میں آپ کے سونے کی حالت میں آپ کے سانس لینے کی آوازسن رہاتھا۔تو جب آپ کے سامنے صبح ظاہر ہوئی تو آپ نے ہلکی دو رکعتیں پڑھیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ میں نے ایک رات اپنی خالہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں بسر کی، میں نے ان سے عرض کیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھیں تو آپ مجھے بھی بیدار کر دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے تو میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنی دائیں پہلو میں کر لیا، جب مجھے جھپکی آنے لگتی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم میرے کان کی لو پکڑ لیتے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ رکعات پڑھیں، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے گوٹھ ماری حتی کہ کہ میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے سونے کی وجہ سے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے سانس کی آوازسن رہاتھا۔ یعنی آپصلی اللہ علیہ وسلم خراٹے لے رہے تھے تو جب آپصلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صبح واصخ ہو گئی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ہلکی پھلکی دو رکعتیں پڑھیں۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 58  
´نیند سے بیدار ہونے پر مسواک کرنا`
«. . . فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ مِنْ مَنَامِهِ، أَتَى طَهُورَهُ، فَأَخَذَ سِوَاكَهُ فَاسْتَاكَ . . .»
. . . جب آپ نیند سے بیدار ہوئے تو اپنے وضو کے پانی کے پاس آئے، اپنی مسواک لے کر مسواک کی . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 58]
فوائد ومسائل:
➊ اس قصے میں مسواک کے اہتمام کا ذکر ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی جاگے مسواک کی۔
➋ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ واقعہ ان کی کم عمری کا ہے۔ اس میں ان کی نجابت و سعادت کا واضح بیان ہے، بالخصوص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمول جاننے کا شوق اور اس غرض کے لیے رات کی بیداری کی مشقت۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 58   
  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 699  
´صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز`
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ، فَقُمْتُ أُصَلِّي مَعَهُ فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ فَأَخَذَ بِرَأْسِي فَأَقَامَنِي عَنْ يَمِينِهِ . . .»
. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ آپ نے بتلایا کہ میں نے ایک دفعہ اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رات گذاری۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک ہو گیا۔ میں (غلطی سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا سر پکڑ کے دائیں طرف کر دیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ: 699]

فقہ الحدیث
اگر امام کی اقتدا میں نماز پڑھی جا رہی ہو تو صف کے پیچھے اکیلے مرد کی کوئی بھی نماز کسی بھی صورت میں نہیں ہوتی۔
اشکال:
مجوزین صحیح بخاری کی یہ حدیث اپنے دلائل میں پیش کرتے ہیں۔
مجوزین کے مزعومہ دلائل کا منصفانہ تجزیہ
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز ہو جاتی ہے لیکن جیسا کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ کا کلام ہے، کتاب و سنت یا اجماع امت میں سے کوئی بھی دلیل ان کا ساتھ نہیں دیتی۔ اپنے باطل مذہب کو ثابت کرنے کے لیے جو دلائل وہ پیش کرتے ہیں، ان کا منصفانہ تجزیہ پیش خدمت ہے:
دلیل نمبر 2:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
«فقام يصلي من الليل، فقمت عن يساره، فتناولني من خلف ظهره، فجعلني على يمينه.»
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز کے لیے کھڑے ہوئے، میں آپ کی بائیں جانب کھڑا ہوا تو آپ نے مجھے میرے پیچھے سے پکڑا اور اپنی دائیں جانب کر دیا۔ [صحيح البخاري:699 صحيح مسلم: 1801]
اسی طرح سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ منقول ہے۔ [صحيح مسلم: 3010]
محل استشہاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دونوں صحابہ کو پکڑ کر اپنے پیچھے سے دائیں جانب لانا ہے اور وجہ استشہاد یہ ہے کہ جب دونوں صحابہ کو پیچھے لایا گیا تو وہ «خلف الصف» یعنی صف کے پیچھے ہو گئے تھے۔ ان کی نماز ایسا کرنے سے باطل نہیں ہوئی، لہٰذا صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز جائز ہے۔
تجزیہ: اس حدیث سے صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز کے جائز ہونے کا استدلال درست نہیں کیونکہ سیدنا ابن عباس اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہم نے صف کے پیچھے نماز نہیں پڑھی بلکہ صرف ایک مجبوری کی بنا پر جگہ تبدیل کی ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ان دونوں صحابہ نے صف کے پیچھے سے اپنی جگہ تبدیل کرتے ہوئے نماز کا کچھ حصہ ادا کیا تھا تو بھی اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ایک مرد اپنی پوری نماز ہی صف کے پیچھے اکیلا اداکر لے بلکہ زیادہ سے زیادہ مجبوری کی بنا پر جگہ تبدیل کرتے ہوئے ایسا کرنا جائز ہو گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز کو عمومی طور پر کالعدم قرار دیا ہے، اس سے یہ جگہ تبدیل کرنے کی مجبوری والی صورت خاص دلیل کی بنا پر خارج ہو جائے گی۔ صف میں نماز پڑھنے والے شخص کو صف تبدیل کرتے ہوئے اپنی صف کے پیچھے ہونے والی نماز دہرانی نہیں پڑے گی جبکہ باہر سے آ کر جماعت کے ساتھ ملنے والا شخص اگر صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھے گا تو اسے ہماری ذکر کردہ پہلی دلیل کی بنا پر نماز دہرانی پڑے گی کیونکہ فرمان رسول یہی ہے۔ یوں سب احادیث پر عمل ہو جائے گا۔

امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وهذا لا حجة فيه لهم، لما ذكرنا من أنه لا يحل ضرب السنن بعضها ببعض، وهذا تلاعب بالدين، وليت شعري ما الفرق بين من ترك حديث جابر وابن عباس الحديث وابصة وعلي بن شيبان، وبين من ترك حديث وابصة وعلي الحديث جابر وابن عباس، وهل هذا كله إلا باطل بحت، وتحكم بلا برهان، بل الحق فى ذلك الاخذ بكل ذلك، فكله حق، ولا يحل خلافه»
اس حدیث میں ان کے لیے کے لیے کوئی دلیل نہیں کیونکہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ احادیث کی ایک دوسرے سے ٹکر دینا جائز ہیں۔ یہ تو دین کے ساتھ مذاق اور تمسخر ہے۔ وابصہ اور علی بن شیبان رضی اللہ عنہما کی روایت کو بنیاد بنا کر جابر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کو چھوڑ دینے والے اور جابر و ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کو بنیاد بنا کر وابصہ و علی بن شیبان رضی اللہ عنہم کی روایت کو چھوڑ دینے والے اس کام میں برابر ہیں۔ یہ سب صورتیں بالکل باطل ہیں اور بلا دلیل فتوے ہیں۔ اس سلسلے میں حق یہ ہے کہ ساری احادیث پر عمل کیا جائے، یہ ساری حق ہیں، ان کی مخالفت جائز نہیں۔ [المحلي لابن حزم: 57/4]

نیز لکھتے ہیں:
«وما سمي قط المدار عن شمال إلٰي يمين مصليا و حدهٔ خلف الصف.»
بائیں سے دائیں جانب گھمائے جانے والے شخص کو کبھی بھی صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے کا نام نہیں دیا گیا۔
معلوم ہوا کہ اس حدیث سے صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔
صف کے پیچھے اکیلے کی نماز مفصل مضمون پڑھنے کے لیے سنن ترمذی حدیث نمبر 230 کے فوائد و مسائل دیکھئیے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 40، حدیث/صفحہ نمبر: 40   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 94  
´اگر کوئی شرعی عذر ہو تو نماز میں عمل جائز ہے چاہے وہ عمل قلیل ہو یا عمل کثیر`
«. . . مالك عن مخرمة بن سليمان عن كريب مولى عبد الله بن عباس ان عبد الله بن عباس اخبره انه بات عند ميمونة زوج النبى صلى الله عليه وسلم وهى خالته، قال: فاضطجعت فى عرض الوسادة واضطجع رسول الله صلى الله عليه وسلم، واهله فى طولها . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک رات رہے جو کہ ان کی خالہ تھیں، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں سرہانے کی چوڑائی میں لیٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے گھر والے اس کی لمبائی میں لیٹ گئے، . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 94]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 183، ومسلم 182/763، من حديث مالك به]
تفقه:
① وضو کے بغیر زبانی قرآن مجید پڑھنا جائز ہے۔
② نوافل کھڑے ہو کر ہی پڑھنے چاہئیں الا یہ کہ کوئی شرعی عذر ہو۔
③ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کتاب وسنت کے علم اور اس پر عمل کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے تھے۔
④ عبادات اور دینی امور اسی طرح سرانجام دینے چاہئیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئے ہیں۔
⑤ اگر کوئی شرعی عذر ہو تو نماز میں عمل جائز ہے چاہے وہ عمل قلیل ہو یا عمل کثیر۔
⑥ رات کی نفل نماز دو دو رکعت ہے۔ نیز دیکھئے حدیث: 200، 202
⑦ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نفل نماز میں ایک سلام کے ساتھ چار اکٹھی رکعتیں پڑھنا صحیح سند سے ثابت نہیں ہے۔
⑧ اگر دو آدمی جماعت سے نماز پڑھنا چاہیں تو امام بائیں طرف کھڑا ہو گا۔
⑨ ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہئے کہ تہجد کبھی فوت نہ ہو اور تہجد کی نماز انتہائی لمبی اور خشوع وخضوع والی ہو اور اس میں ریاکاری کے بجائے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو۔ ایسی نماز پڑھیں گویا یہ آپ کی آخری نماز ہے۔
⑩ امام کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ نماز پڑھتے وقت مقتدیوں کی امامت کی نیت بھی کرے۔
اس حدیث سے دیگر فوائد بھی ثابت ہیں مثلاََ رات کو نیند سے بیدار ہوتے وقت آل عمران کی آخری دس آیات کی تلاوت مستحب ہے - نیز دیکھئے [التمهيد 207/13-218] اور یہ کہ گیارہ رکعات سے زیادہ بھی پڑھ سکتا ہے - وغیرہ
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 193   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 117  
´سونے سے پہلے رات کے وقت علمی باتیں کرنا`
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" بِتُّ فِي بَيْتِ خَالَتِي مَيْمُونَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا فِي لَيْلَتِهَا، فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ، ثُمَّ جَاءَ إِلَى مَنْزِلِهِ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ نَامَ، ثُمَّ قَامَ، ثُمَّ قَالَ: نَامَ الْغُلَيِّمُ أَوْ كَلِمَةً تُشْبِهُهَا، ثُمَّ قَامَ، فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ، فَصَلَّى خَمْسَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ نَامَ حَتَّى سَمِعْتُ غَطِيطَهُ أَوْ خَطِيطَهُ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ . . .»
. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ ایک رات میں نے اپنی خالہ میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا زوجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گزاری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (اس دن) ان کی رات میں ان ہی کے گھر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز مسجد میں پڑھی۔ پھر گھر تشریف لائے اور چار رکعت (نماز نفل) پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، پھر اٹھے اور فرمایا کہ (ابھی تک یہ) لڑکا سو رہا ہے یا اسی جیسا لفظ فرمایا۔ پھر آپ (نماز پڑھنے) کھڑے ہو گئے اور میں (بھی وضو کر کے) آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دائیں جانب (کھڑا) کر لیا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعت پڑھیں۔ پھر دو پڑھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے۔ یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خراٹے کی آواز سنی، پھر آپ کھڑے ہو کر نماز کے لیے (باہر) تشریف لے آئے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 117]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
بظاہر حدیث اور باب میں مناسبت معلوم نہیں ہوتی مگر جب بصیرت کی نگاہ کو بروئے کار لایا جائے تو مناسبت کے کئی پہلو نکلتے ہیں، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ عادت ہے کہ وہ حدیث لا کر اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب التفسیر میں نکالا اور اس حدیث میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گھڑی تک اپنی بیوی سے باتیں کیں جو اس مسئلے پر دلالت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو اپنی بیوی کو علم سکھلایا اس کے علاوہ ایک اور تطبیق بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت تہجد پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی سنتوں پر عمل کر کے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بتلایا کیوں کہ صرف زبان سے ہی تبلیغ نہیں ہوتی بلکہ آدمی اچھی بات پر عمل کر کے بھی دعوت و تبلیغ کی بنیاد بنا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ بھی کئی احادیث «السمر فى العلم» رات کے وقت علمی گفتگو پر دلالت کرتی ہیں۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ويدخل فى هذا الباب حديث انس رضى الله عنه أن النبى صلى الله عليه وسلم خطبهم بعد العشاء، وذكره المصنف فى كتاب الصلاة ولأنس حديث اخرني قصة اسيد بن حضير وقد ذكره المصنف فى المناقب، وحديث عمر كان النبى صلى الله عليه وسلم يسسرع ابي بكر فى الامر من امور المسلمين .» [فتح الباري، ج1 ص284]
اس باب میں کئی احادیث داخل ہیں (مثلاً) سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، انہیں عشاء کے بعد (جو کہ «السمر فى العلم» کی دلیل ہے) جسے امام بخاری نے کتاب الصلاۃ میں ذکر فرمایا اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث اسید بن حضیر کا جو قصہ ہے جسے مصنف نے کتاب المناقب میں ذکر فرمایا ہے اور حدیث سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جس میں یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت (عشاء کے بعد) مسلمانوں کے مسائل پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگو فرمایا کرتے تھے۔‏‏‏‏

بعضوں نے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کا ذکر یوں بھی کیا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو فرمایا کہ لڑکا سو رہا ہے؟ یعنی یہ جملہ «السمر فى العلم» ہے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ کہنے سے وہ اٹھ گئے، وضو کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا فرمائی، لہٰذا یہ کلمہ اس بات پر مثبت ہے کہ یہ «السمر» تھا۔

◈ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«يحتمل أنه يريد هذه الكلمة فيثبت بها أصل السمر» [المتواري ص64]
یعنی یہ جملہ لڑکا سو رہا ہے۔ احتمال یہ ہے کہ یہی «سمر فى العلم» ہے۔
لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت واضح ہوتی ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 112   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 117  
´ اس بارے میں کہ سونے سے پہلے رات کے وقت علمی باتیں کرنا جائز ہے `
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بِتُّ فِي بَيْتِ خَالَتِي مَيْمُونَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا فِي لَيْلَتِهَا، فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ، ثُمَّ جَاءَ إِلَى مَنْزِلِهِ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ نَامَ، ثُمَّ قَامَ، ثُمَّ قَالَ: نَامَ الْغُلَيِّمُ أَوْ كَلِمَةً تُشْبِهُهَا، ثُمَّ قَامَ، فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ، فَصَلَّى خَمْسَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ نَامَ حَتَّى سَمِعْتُ غَطِيطَهُ أَوْ خَطِيطَهُ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ . . . .»
. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ ایک رات میں نے اپنی خالہ میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا زوجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گزاری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (اس دن) ان کی رات میں ان ہی کے گھر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز مسجد میں پڑھی۔ پھر گھر تشریف لائے اور چار رکعت (نماز نفل) پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، پھر اٹھے اور فرمایا کہ (ابھی تک یہ) لڑکا سو رہا ہے یا اسی جیسا لفظ فرمایا۔ پھر آپ (نماز پڑھنے) کھڑے ہو گئے اور میں (بھی وضو کر کے) آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دائیں جانب (کھڑا) کر لیا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعت پڑھیں۔ پھر دو پڑھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے۔ یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خراٹے کی آواز سنی، پھر آپ کھڑے ہو کر نماز کے لیے (باہر) تشریف لے آئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ السَّمَرِ بِالْعِلْمِ:: 117]

تشریح:
کتاب التفسیر میں بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث ایک دوسری سند سے نقل کی ہے۔ وہاں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دیر حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ سے باتیں کیں اور پھر سو گئے، اس جملے سے اس حدیث کی باب سے مطابقت صحیح ہو جاتی ہے۔ یعنی سونے سے پہلے رات کو علمی گفتگو کرنا جائز و درست ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 117   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 443  
´نیند کی وجہ سے وضو کا حکم۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک رات نماز پڑھی تو میں (جا کر) آپ کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی داہنی طرف کر لیا، اور نماز ادا کی، پھر لیٹے اور سو گئے اتنے میں مؤذن آپ کے پاس آیا (اس نے آپ کو جگایا) تو آپ نے (جا کر) نماز پڑھی، اور وضو نہیں کیا روایت مختصر ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 443]
443 ۔ اردو حاشیہ:
➊ امام کے ساتھ ایک مقتدی ہو تو وہ آگے پیچھے کی بجائے برابر کھڑے ہوں گے۔ امام بائیں طرف، مقتدی دائیں طرف۔
➋ لیٹ کر سونا اور پھر وضو نہ کرنا آپ کا خاصہ ہے کیونکہ آپ کا دل اس حالت میں بھی جاگتا رہتا تھا۔ آپ نے خود فرمایا ہے: میری آنکھیں سوتی ہیں، دل (دماغ) جاگتا رہتا ہے۔ [صحیح البخاری، التهجد، حدیث: 1147، وصحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 738]
ہماری یہ کیفیت نہیں ہے، لہٰذا ہمیں ایسی صورت میں وضو کرنا ہو گا۔ مذکورہ روایت یہاں سنن نسائی میں تو مختصر ہے لیکن صحیحین، یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں تفصیلاً موجود ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاری، الوضوء، حدیث: 138، و صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 763]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 443   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 687  
´مؤذن کا امام کو نماز کی خبر دینے کا بیان۔`
کریب مولی ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہم سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تہجد (صلاۃ اللیل) کیسی تھی؟ تو انہوں نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کے ساتھ گیارہ رکعتیں پڑھیں، پھر سو گئے یہاں تک کہ نیند گہری ہو گئی، پھر میں نے آپ کو خراٹے لیتے ہوئے دیکھا، اتنے میں آپ کے پاس بلال رضی اللہ عنہ آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! نماز؟ تو آپ نے اٹھ کر دو رکعتیں پڑھیں، پھر لوگوں کو نماز پڑھائی اور (پھر سے) وضو نہیں کیا۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 687]
687 ۔ اردو حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند ناقض (وضو توڑنے والی) نہیں تھی کیونکہ آپ کا دل جاگتا رہتا تھا۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الإعتصام بالکتاب و السنة، حدیث: 7281]
یعنی آپ کو حدث (بے وضو ہونے) وغیرہ کا پتہ چل جاتا تھا۔ خراٹے بھرنا گہری نیند کی دلیل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 687   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 807  
´مقتدی بچہ ہو تو امام کے کھڑے ہونے کی جگہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رات گزاری، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں اٹھ کر نماز پڑھنے لگے تو میں بھی آپ کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ اس طرح کیا یعنی آپ نے میرا سر پکڑ کر مجھے اپنی داہنی جانب کھڑا کر لیا۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 807]
807 ۔ اردو حاشیہ: پیچھے گزر چکا ہے کہ جماعت کے مسئلے میں سمجھ دار بچہ بالغ کی طرح ہے لہٰذا وہ اگر ایک ہے تو امام کے ساتھ ہی کھڑا ہو گا نیز معلوم ہوا کہ مقتدی ایک ہو تو وہ امام کی دائیں طرف کھڑا ہو گا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 807   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 843  
´جب دو آدمی ہوں تو باجماعت نماز کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو میں آپ کے بائیں کھڑا ہوا، تو آپ نے مجھے اپنے بائیں ہاتھ سے پکڑا، اور (پیچھے سے لا کر) اپنے دائیں کھڑا کر لیا۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 843]
843 ۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث 807۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 843   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث423  
´وضو میں میانہ روی کی فضیلت اور حد سے تجاوز کرنے کی کراہت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس رات بسر کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں بیدار ہوئے، اور آپ نے ایک پرانے مشکیزے سے بہت ہی ہلکا وضو کیا، میں بھی اٹھا اور میں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 423]
اردو حاشہ:
(1)
یہ ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ہے جس میں اس کے بعد نبیﷺ کی نماز تہجد کا ذکر ہے جس میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی بطور مقتدی شریک تھے۔

(2)
نفلی عبادت میں بھی بچوں کو شریک کرنا چاہیےتاکہ انھیں اس کی عادت ہوجائے۔

(3)
وضو میں ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کرنا درست نہیں ہے بلکہ تھوڑے پانی کے ساتھ ہلکا وضو کرلینا بھی کافی ہے۔

(4)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ہر کام میں نبی ﷺ کے طریقے پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے خواہ وہ کام واجب ہو یا مستحب۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 423   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 331  
´نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے سے میرا سر پکڑا اور مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کر لیا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 331»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأذان، باب إذا قام الرجل عن يسار الإمام، حديث:698، ومسلم، صلاة المسافرين، باب الدعاء في صلاة الليل وقيامه، حديث:763.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر جماعت سے نماز پڑھنے والے دو ہی شخص ہوں تو مقتدی کو امام کے دائیں طرف کھڑا ہونا چاہیے اور اگر غلطی و نادانی سے مقتدی بائیں طرف کھڑا ہو جائے تو امام کھینچ کر (یا اشارے سے) اسے اپنے دائیں طرف کر لے۔
اتنے عمل سے نماز فاسد نہیں ہوتی کیونکہ یہ فعل بھی نماز ہی کے لیے کیا گیا ہے‘ نماز سے خارج کسی کام کے لیے نہیں۔
مقتدی کو بھی فوراً تعمیل کر کے بائیں سے دائیں جانب آجانا چاہیے۔
ایسی تبدیلی ٔمکان سے نماز فاسد نہیں ہوتی بشرطیکہ وہ نماز کی اصلاح و درستی کے لیے کی گئی ہو۔
2. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جماعت دو افراد سے بھی ہو جاتی ہے۔
گویا دو کی تعداد جماعت کی تعریف میں آجاتی ہے۔
3 اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نفل نماز کی جماعت بھی جائز ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 331   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1792  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہاں نماز کے آغاز میں جو آپﷺ نے دو ہلکی رکعتیں پڑھی تھیں ان کو نظر انداز کر دیا گیا،
کیونکہ آپﷺ نے تیرہ رکعات پڑھی تھیں جیسا کہ صراحتاً گزر چکا ہے۔
اور یہاں سونے کی صورت اِحْتِبَاء کو بتایا گیا ہے اور اِحْتِبَاء کہتے ہیں اپنی ٹانگیں پیٹ کے ساتھ ملا کر پشت کی طرف سے کپڑے کے ساتھ باندھ لینا،
تاکہ انسان کو گرنے سے سہارا میسر آ جائے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1792