صحيح مسلم
كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا -- مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام
27. باب اسْتِحْبَابِ تَطْوِيلِ الْقِرَاءَةِ فِي صَلاَةِ اللَّيْلِ:
باب: تہجد میں لمبی قرأت کا مستحب ہونا۔
حدیث نمبر: 1815
وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ كِلَاهُمَا، عَنْ جَرِيرٍ ، قَالَ عُثْمَانُ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ " صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَطَالَ حَتَّى هَمَمْتُ بِأَمْرِ سَوْءٍ، قَالَ: قِيلَ: وَمَا هَمَمْتَ بِهِ؟ قَالَ: هَمَمْتُ أَنْ أَجْلِسَ وَأَدَعَهُ ".
جریر نے اعمش سے اور انھوں نے ابووائل سے روایت کی۔انھوں نے کہا: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازپڑھی آپ نے اتنی لمبی نماز پڑھی کہ میں نے ایک ناپسندیدہ کام کا ارادہ کر لیا۔کہا: تو ان سے پوچھا گیا آپ نے کس بات کا ارادہ کیا تھا؟ انھوں نے کہا: میں نے ارادہ کیا کہ بیٹھ جاؤں اور آپ کو (اکیلے ہی قیام کی حالت میں) چھوڑدوں۔"
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز شروع کی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے بہت طویل نماز پڑھی حتی کہ میں نے ایک برے کام کا ارادہ کر لیا تو ان سے پوچھا گیا، آپ نے کس بات کا ارادہ کیا تھا؟ انہوں نے کہا، میں نے ارادہ کیا کہ میں بیٹھ جاؤں اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑا چھوڑ دوں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1418  
´نماز میں قیام لمبا کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ برابر کھڑے رہے یہاں تک کہ میں نے ایک برے کام کا ارادہ کر لیا، (راوی ابووائل کہتے ہیں:) میں نے پوچھا: وہ کیا؟ کہا: میں نے یہ ارادہ کر لیا کہ میں بیٹھ جاؤں، اور آپ کو (کھڑا) چھوڑ دوں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1418]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نماز تہجد باجماعت جائز ہے۔

(2)
نماز تہجد میں طویل قراءت افضل ہے۔

(3)
شاگردوں کو تربیت دینے کےلئے ان سے مشکل کام کروانا جائز ہے۔
اگرچہ اس میں مشقت نہ ہو۔

(4)
استاد کا خود نیک عمل کرنا شاگردوں کو اس کا شوق دلاتا اور ہمت پیدا کرتا ہے۔

(5)
صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نیکی کا اس قدر شوق رکھتے تھے۔
کہ افضل کام کو چھوڑ کر جائز کام اختیار کرکے انھوں نے بُرا کام قرار دیا۔

(6)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارادہ نبی کریمﷺ کی اقتدا میں نمازادا کرنے کا تھا۔
اب اتباع اور محبت کا تقاضا ہے۔
کہ اس نیکی میں آخر تک ساتھ دیا جائے۔
اس لئے بیٹھ جانے کو انھوں نے بُرا سمجھا۔
کہ یہ محبت کےتقاضے کے خلاف ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1418