صحيح مسلم
کتاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ وَمَا يَتَعَلَّقُ بِهِ -- قرآن کے فضائل اور متعلقہ امور
43. باب فَضْلِ الْفَاتِحَةِ وَخَوَاتِيمِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ وَالْحَثِّ عَلَى قِرَاءَةِ الآيَتَيْنِ مِنْ آخِرِ الْبَقَرَةِ:
باب: سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتوں کی فضیلت اور ان دونوں آیتوں کو پڑھنے کی ترغیب۔
حدیث نمبر: 1877
حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ ، وَأَحْمَدُ بْنُ جَوَّاسٍ الْحَنْفِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ رُزَيْقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: بَيْنَمَا جِبْرِيلُ قَاعِدٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعَ نَقِيضًا مِنْ فَوْقِهِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: هَذَا بَابٌ مِنَ السَّمَاءِ، فُتِحَ الْيَوْمَ، لَمْ يُفْتَحْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ، فَنَزَلَ مِنْهُ مَلَكٌ، فَقَالَ: هَذَا مَلَكٌ نَزَلَ إِلَى الأَرْضِ، لَمْ يَنْزِلْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ، فَسَلَّمَ، وَقَالَ: " أَبْشِرْ بِنُورَيْنِ أُوتِيتَهُمَا لَمْ يُؤْتَهُمَا نَبِيٌّ قَبْلَكَ، فَاتِحَةُ الْكِتَابِ وَخَوَاتِيمُ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، لَنْ تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِنْهُمَا إِلَّا أُعْطِيتَهُ ".
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ جبرئیل علیہ السلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک انھوں نے اوپر سے ایسی آواز سنی جیسی دروازہ کھلنے کی ہوتی ہے تو انھوں نے اپنا سر اوپر اٹھایا اور کہا: آسمان کا یہ دروازہ آج ہی کھولا گیا ہے، آج سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا، اس سے ایک فرشتہ اترا تو انھوں نے کہا: یہ ایک فرشتہ آسمان سے اترا ہے یہ آج سے پہلے کبھی نہیں اترا، اس فرشتے نے سلام کیا اور (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے) کہا: آپ کو دو نور ملنے کی خوشخبری ہو جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیئے گئے: (ایک) فاتحہ الکتاب (سورہ فاتحہ) اور (دوسری) سورہ بقرہ کی آخری آیات۔آپ ان دونوں میں سے کوئی جملہ بھی نہیں پڑھیں گے مگر وہ آپ کو عطا کردیا جائے گا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےروایت ہے کہ جبرئیل علیہ السلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی اثناء میں انھوں نے اوپر سے آواز سنی اور اپنا سر اوپر اٹھایا اور کہا: آسمان کا یہ دروازہ آج ہی کھولا گیا ہے، آج کے سوا کبھی نہیں کھلا گیا، تو اس سے ایک فرشتہ اترا تو جبرائیل علیہ السلام سے کہا یہ ایک فرشتہ زمین پر اترا ہے آج سے پہلے کبھی نہیں اترا، اس فرشتے نے سلام عرض کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا، آپصلی اللہ علیہ وسلم کو دو نور وں کی بشارت ہو، جو آپ ہی کو دیئے گئے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیئے گئے، ایک فاتحہ الکتاب اور دوسرا سورہ بقرہ کی آخری آیات، آپصلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے جو جملہ بھی پڑھیں گے، اس میں مانگی ہوئی چیز آپصلی اللہ علیہ وسلم کو ملے گی۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1877  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
سورۃ فاتحۃ بقرہ کی آخری آیات کو نور سے تعبیر کیا گیا ہے جس کی روشنی میں انسان اپنا سفر طے کرتا ہے سورۃ فاتحہ دین جو ضابطہ حیات اور روشن زندگی کا نام ہے میں اس کا خلاصہ اور نچوڑ بیان کیا گیا ہے اور اس کی روشنی میں چل کر ہی انسان کامیابی اور کامرانی سے صراط مستقیم پر گامزن ہو کر مقصود زندگی حاصل کرسکتا ہے اسی طرح سورۃ بقرہ کی آخری آیات میں ارکان ایمان کا بیان ہے اور اپنی کامیابی و کامرانی کے لیے دعا ہے اور ہر مطلوب و محبوب چیز کا سوال ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1877