صحيح مسلم
كِتَاب الْجُمُعَةِ -- جمعہ کے احکام و مسائل
1ق. باب:
باب: جمعہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1954
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ بِمِثْلِهِ.
یونس نے ابن شہاب سے، انھوں نے سالم بن عبداللہ سے اورانھوں نے اپنے والد سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئےسنا۔۔۔ (آگے) اسی (سابقہ حدیث) کے مانند ہے۔
مصنف نے اپنے ایک اور استاد سے مذکورہ بالاروایت بیان کی ہے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1954  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اہل ظاہر کا موقف یہ ہے کہ جمعہ کے لیے غسل کرنا فرض ہے،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول یہی ہے،
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا خیال ہے جمعہ کی صحت کے لیے غسل شرط نہیں ہے بلکہ یہ ایک مستقل فرض ہے حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا نظریہ ہے کہ اگر انسان کو پسینہ آتا ہو،
جو دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث بنتا ہو،
یعنی کام کاج کرنے والے لوگ جن کے بدن سے بدبو اٹھ سکتی ہے۔
ان کے لیے غسل کرنا فرض ہے بہر حال آداب واخلاق اور جمعہ کے احترام کا تقاضا یہی ہے کہ جمعہ کے لیے غسل کیا جائے اگرچہ جمہور کے نزدیک غسل کرنا سنت مستحبہ ہے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا موقف یہی ہے،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام لیث رحمۃ اللہ علیہ اور امام اوازعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک غسل جمعہ کے لیے جاتے وقت کرنا چاہیے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی حدیث کا تقاضا یہی ہے اور جمہور کے نزدیک صبح کے بعد جب چاہے غسل کر سکتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1954