صحيح مسلم
كِتَاب الْجُمُعَةِ -- جمعہ کے احکام و مسائل
16. باب مَا يُقْرَأُ فِي صَلاَةِ الْجُمُعَةِ:
باب: جمعہ کی نماز میں کیا پڑھنا چاہیے؟
حدیث نمبر: 2028
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإسحاق ، جميعا، عَنْ جَرِيرٍ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ مَوْلَى النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْعِيدَيْنِ وَفِي الْجُمُعَةِ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ، قَالَ: وَإِذَا اجْتَمَعَ الْعِيدُ وَالْجُمُعَةُ فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ يَقْرَأُ بِهِمَا أَيْضًا فِي الصَّلَاتَيْنِ ".
جریر نے ابراہیم بن محمد بن منتشر سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت نعمان بن بشیر کے آزاد کردہ غلام حبیب بن سالم سے اور انھوں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سےروایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین اور جمعے میں سَبِّحِ اسْمَ رَ‌بِّکَ الْأَعْلَی اور) ہَلْ أَتَاکَ حَدِیثُ الْغَاشِیَۃِ پڑھتے۔ کہا: اور اگر عید اور جمعہ ایک ہی دن اکھٹے ہوجاتے تو آپ یہی دو سورتیں دونوں نمازوں میں پڑھتے تھے۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین اور جمعہ میں ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَ‌بِّكَ الْأَعْلَى﴾ اور ﴿هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ﴾ پڑھتے تھے اور اگر عید اور جمعہ ایک ہی دن اکھٹے ہو جاتے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم دونوں نمازوں میں ہی انہیں پڑھتے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 533  
´عیدین میں پڑھی جانے والی سورتوں کا بیان۔`
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عیدین اور جمعہ میں «سبح اسم ربك الأعلى» اور «هل أتاك حديث الغاشية» پڑھتے تھے، اور بسا اوقات دونوں ایک ہی دن میں آ پڑتے تو بھی انہی دونوں سورتوں کو پڑھتے۔ [سنن ترمذي/أبواب العيدين/حدیث: 533]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی اس سند میں حبیب بن سالم اور نعمان بن بشیر کے درمیان حبیب کے والد کا اضافہ ہے،
جو صحیح نہیں ہے۔

2؎:
یعنی:
بغیر عن أبیہ کے اضافہ کے،
یہ روایت آگے آ رہی ہے۔

3؎:
اس میں کوئی تضاد نہیں،
کبھی آپ یہ سورتیں پڑھتے اور کبھی وہ سورتیں،
بہر حال ان کی قراءت مسنون ہے،
فرض نہیں،
لیکن ایسا نہیں کہ بعض لوگوں کی طرح ان مسنون سورتوں کو پڑھے ہی نہیں۔
مسنون عمل کو بغیر کسی شرعی عذر کے جان بوجھ کر چھوڑنا سخت گنا ہ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 533   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2028  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ان دو صورتوں کے پڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ ان میں انسان کے لیے درس عبرت ہے۔
سورہ اعلیٰ میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں تدریج اور ترتیب ہے۔
اس لیے اپنے رب پر بھروسہ رکھو جلد وہ وقت آئے گا جب تمہاری محنت وکوشش بارآور ہو گی اور تمہاری سعی بامراد ہو گی۔
پیغمبر اور مبلغ کا کام سنانا ہے اور سنیں گے صرف وہی لوگ جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں اور کامیابی انہیں خوش بختوں کے لیے ہے جنھوں نے اپنے آپ کو پاک کیا۔
اپنے رب کو یاد کیا اورنماز پڑھی جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی لذت کو جوعارضی اور فانی ہے۔
آخرت پر جو بہتر اور پائیدار ہے ترجیح دیتے ہیں۔
وہ کامیابی اور کامرانی سے ہم کنار نہیں ہو سکتے۔
دین کی پابندی ان کے بس کا روگ نہیں ہے۔
اور سورہ غاشیہ میں بتایا گیا ہے جو لوگ قیامت سے بے فکر ہو کر زندگی گزارتے ہیں۔
ان کو قیامت کے دن کن حالات سے سابقہ پیش آئے گا اور جو لوگ قیامت سے ڈرتے ہوئے زندگی گزار دیں گے۔
ان کو کس قسم کی کامیابی نصیب ہو گی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2028