صحيح مسلم
كِتَاب صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ -- نماز عیدین کے احکام و مسائل
1ق. باب:
باب: نماز عیدین کا بیان۔
حدیث نمبر: 2048
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ يَوْمَ الْعِيدِ، فَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ، ثُمَّ قَامَ مُتَوَكِّئًا عَلَى بِلَالٍ فَأَمَرَ بِتَقْوَى اللَّهِ وَحَثَّ عَلَى طَاعَتِهِ وَوَعَظَ النَّاسَ وَذَكَّرَهُمْ، ثُمَّ مَضَى حَتَّى أَتَى النِّسَاءَ فَوَعَظَهُنَّ وَذَكَّرَهُنَّ، فَقَالَ: " تَصَدَّقْنَ فَإِنَّ أَكْثَرَكُنَّ حَطَبُ جَهَنَّمَ "، فَقَامَتِ امْرَأَةٌ مِنْ سِطَةِ النِّسَاءِ سَفْعَاءُ الْخَدَّيْنِ، فَقَالَتْ: لِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: " لِأَنَّكُنَّ تُكْثِرْنَ الشَّكَاةَ وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ "، قَالَ: فَجَعَلْنَ يَتَصَدَّقْنَ مِنْ حُلِيِّهِنَّ، يُلْقِينَ فِي ثَوْبِ بِلَالٍ مِنْ أَقْرِطَتِهِنَّ وَخَوَاتِمِهِنَّ.
عبد الملک بن ابی سلیمان نے عطاء سے اور انھوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روا یت کی انھوں نے کہا: میں عید کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں حاضر ہوا آپ نے خطبے سے پہلے اذان اور تکبیر کے بغیر نماز سے ابتدا کی پھر بلال رضی اللہ عنہ کا سہارا لے کر کھڑے ہو ئے اللہ کے تقوے کا حکم دیا اس کی اطاعت پر ابھا را لو گو ں کو نصیحت کی اور انھیں (دین کی بنیادی باتوں کی) یاد دہانی کرا ئی پھر چل پڑے حتیٰ کہ عورتوں کے پاس آگئے (تو) انھیں وعظ و تلقین (تذکیر) کی اور فرمایا۔"صدقہ کرو کیونکہ تم میں اسے اکثر جہنم کا ایندھن ہیں۔"عورتوں کے در میان سے ایک بھلی سیاہی مائل رخساروں والی عورت نے کھڑے ہو کر پوچھا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیوں؟آپ نے فرمایا: اس لیے کہ تم شکا یت بہت کرتی ہو اور اپنے رفیق زندگی کی ناشکری کرتی ہو۔ (جا بر رضی اللہ عنہ نے) کہا اس پردہ عورتیں اپنے زیورات سے صدقہ کرنے لگیں وہ بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں اپنی بالیاں اور انگھوٹھیاں ڈالنے لگیں۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں عید کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں حاضر ہوا آپصلی اللہ علیہ وسلم نے خطبے سے پہلے اذان اور تکبیر کے بغیر نماز سے ابتدا کی پھر بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سہارا لے کر کھڑے ہوئے اللہ کی حدود کی پابندی کا حکم دیا۔ اس کی اطاعت پر آمادہ فرمایا اور لو گو ں کو نصیحت کی اور انھیں یاد دہانی (تذکیر) کی۔ پھر چل پڑے حتیٰ کہ عورتوں کے پاس آ گئے انھیں وعظ و تذکیر کی اور فرمایا: صدقہ کرو کیونکہ تمہاری اکثریت جہنم کا ایندھن ہے عورتوں کے در میان سے ایک سیاہ رخساروں والی عورت نے کھڑی ہوئی ا س نے پوچھا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیوں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم شکوہ و شکا یت بہت کرتی ہو اور اپنے رفیق زندگی کی ناشکری کرتی ہو۔ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں وہ اپنے زیورات سے صدقہ کرنے لگیں وہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کپڑے میں اپنی بالیاں اور انگھوٹھیاں ڈال رہی تھیں۔ (اقرط، قرط کی جمع ہے بالیاں جو کانوں میں ڈالتی ہیں۔)
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2048  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
سطة:
اگر یہ وسط سے ہو تو معنی ہو گا عورتوں کے درمیان سے۔
اسفع،
کی تانیث سفعاء ہے،
سیاہی مائل کو کہتے ہیں۔
(2)
حلي:
حلی کی جمع ہے زیورات۔
(3)
تكفرن العشير:
عشیر۔
ساتھی اور رفیق کو کہتے ہیں مراد خاوند ہے اور یہ تكثرن الشكاة کی توضیح و تفسیر ہے کہ تم خاوند کی احسان فراموش ہو،
ان کا شکوہ و شکایت ہی کرتی رہتی ہو۔
قرط اور خرص ہم معنی ہیں:
بالیاں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2048