صحيح مسلم
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- جنازے کے احکام و مسائل
9. باب الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ:
باب: میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔
حدیث نمبر: 2154
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: ذُكِرَ عِنْدَ عَائِشَةَ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ يَرْفَعُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ "، فَقَالَتْ: وَهِلَ إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهُ لَيُعَذَّبُ بِخَطِيئَتِهِ أَوْ بِذَنْبِهِ، وَإِنَّ أَهْلَهُ لَيَبْكُونَ عَلَيْهِ الْآنَ ". وَذَاكَ مِثْلُ قَوْلِهِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ عَلَى الْقَلِيبِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَفِيهِ قَتْلَى بَدْرٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَقَالَ لَهُمْ مَا قَالَ: " إِنَّهُمْ لَيَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ "، وَقَدْ وَهِلَ، إِنَّمَا قَالَ: " إِنَّهُمْ لَيَعْلَمُونَ أَنَّ مَا كُنْتُ أَقُولُ لَهُمْ حَقٌّ "، ثُمَّ قَرَأَتْ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتَى سورة النمل آية 80، وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ سورة فاطر آية 22، يَقُولُ: حِينَ تَبَوَّءُوا مَقَاعِدَهُمْ مِنَ النَّارِ.
ابو اسامہ نے ہشام سے اور انھوں نے اپنے والد (عروہ) سے روایت کی انھوں نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس اس بات کا ذکر کیا گیا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً یہ بیان کرتے ہیں میت کو اس کی قبر میں اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب دیا جا تا ہے۔"انھوں نے کہا: وہ (ابن عمر رضی اللہ عنہ) بھول گئے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا تھا: "اس (مرنےوالے) کو اس کی غلطی یا گناہ کی وجہ سے عذاب دیا جا رہا ہے اور اس کے گھر والے اب اسی وقت اس پر رورہے ہیں اور یہ (بھول) ان (اعبداللہ رضی اللہ عنہ) کی اس روا یت کے مانند ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے دب اس کنویں (کے کنارے) پر کھڑے ہو ئے جس بدر میں قتل ہو نے والے مشرکوں کی لا شیں تھیں تو آپ نے ان سے جو کہنا تھا کہا (اور فرمایا: "اب) جو میں کہہ رہا ہوں وہ اس کو بخوبی سن رہے ہیں۔حالا نکہ (اس بات میں بھی) وہ بھول گئے آپ نے تو فرمایا تھا: " یہ لو گ بخوبی جانتے ہیں کہ میں ان سے (دنیامیں) جو کہاکرتا تھا وہ حق تھا۔"پھر انھوں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) نے (یہ آیتیں پڑھیں) "اور بے شک تو مردوں کو نہیں سنا سکتا۔"اور تو ہر گز انھیں سنانے والا نہیں جو قبروں میں ہیں (گویا) آپ یہ کہہ رہے ہیں: جبکہ وہ آگ میں اپنے ٹھکانے بنا چکے ہیں (اور وہ اچھی طرح جان چکے ہیں کہ جو ان سے کہا گیا تھا وہی سچ ہے یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہ ان دو روایتوں کا اصل بیان محفوظ نہیں رکھ سکے۔)
عروہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بتایا گیا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمان بیان کرتے ہیں کہ میت کو اس کی قبر میں اس کے گھر والوں کے اس پر رونے کے سبب عذاب دیا جاتا ہے۔ تو انھوں نے کہا: وہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما غلطی کر گئے(بھول کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بس یہ فرمایا تھا: اسے اس کی غلطی یا گناہ کے سبب عذاب دیا جا رہا ہے اور اس کے گھر والے اب اس پر رو رہے ہیں اور یہ ان کے اس قول کی طرح ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم بدر کے دن، اس کنویں پر کھڑے ہوئے جس میں بدر میں قتل ہونے والے مشرکوں کی لاشیں تھیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جو بات کہی (یعنی ھل وجدتم ما وعدتم جس چیز کی تمہیں دھمکی دی جاتی تھی اس کو پا کیا) یہ نہیں کہا کہ میں جو کہہ رہا ہوں، یہ سن رہے ہیں۔ اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کی بات بتانے میں ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما غلطی کر گئے آپصلی اللہ علیہ وسلم نے تو بس یہ کہا تھا (انہوں نے جان لیا ہے، میں انہیں جو کچھ بتایا کرتا تھے وہ حق ہے۔ پھر عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آیت پڑھی: آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ (نحل،آیت:80) اور آپ قبروالوں کو نہیں سنا سکتے۔ (فاطر،آیت:22) آپ اس وقت کی خبردے رہے ہیں جبکہ وہ آگ میں اپنے ٹھکانے بنا چکے ہیں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1595  
´میت پر نوحہ خوانی سے اس کو عذاب ہوتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک یہودی عورت کا انتقال ہو گیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو اس پر روتے ہوئے سنا، تو فرمایا: اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں جب کہ اسے قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1595]
اردو حاشہ:
فائدہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ پس ماندگان کے رونے سے میت کو عذاب نہیں ہوتا۔
کیونکہ ایک کے عمل کی سزا دوسرے کو نہیں دی جا سکتی۔
رسول اللہ ﷺنے یہ بات ایک قانون کے طور پر نہیں فرمائی تھی۔
کہ ہر رونے والے کی وجہ سے میت کو عذاب ہوتا ہے۔
بلکہ یہودیوں کو اپنے مرنے والی پر روتے دیکھ کر فرمایا تھا کہ ان کے رونے کا اسے کیا فائدہ؟ وہ تو اپنے گناہوں کی سزا بھگت ہی رہی ہے۔
یہ رویئں یا نہ رویئں برابر ہے۔
ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ رائے اپنی جگہ درست ہے کہ رونے پیٹنے کا میت کو کیا فائدہ؟ تاہم حدیث کا وہ مفہوم زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔
کہ ان کے رونے سے بھی اسے عذاب ہوتا ہے۔
جبکہ وہ اپنى زندگی میں اسے اچھا سمجھتا رہا ہواس کی تلقین کرتا رہا ہو یا ا س کی وصیت کی ہو اگر یہ صورت حال نہ ہو تو پھر ان کے رونے پیٹنے اور بین کرنے سے اسے افسوس تو ہوتا ہے۔
کہ جو موقع عبرت حاصل کرنے کا تھا۔
اس موقع پر بھی وہ گناہ میں ملوث ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ فرماتے ہیں۔ (باب قول النبي صلي الله عليه وسلم يعذب الميت ببعض بكاء اهله عليه ...اذا كان النوح من سنته.......،) (صحیح البخاري، الجنائز، باب: 32)
نبی ﷺ کے اس فرمان کا بیان کہ میت کو اس کے بعض گھر والوں کے بعض رونے سے عذاب ہوتا ہے۔
یعنی جب رونا پیٹنا اس (کے خاندان)
کی رسم ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1595