صحيح مسلم
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- جنازے کے احکام و مسائل
17. باب فَضْلِ الصَّلاَةِ عَلَى الْجَنَازَةِ وَاتِّبَاعِهَا:
باب: جنازہ کے پیچھے جانا اور نماز جنازہ پڑھنے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 2189
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، وَهَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، واللفظ لهارون، وحرملة، قَالَ هَارُونُ: حَدَّثَنَا، وَقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ هُرْمُزَ الْأَعْرَجُ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ شَهِدَ الْجَنَازَةَ حَتَّى يُصَلَّى عَلَيْهَا فَلَهُ قِيرَاطٌ، وَمَنْ شَهِدَهَا حَتَّى تُدْفَنَ فَلَهُ قِيرَاطَانِ "، قِيلَ: وَمَا الْقِيرَاطَانِ؟، قَالَ: مِثْلُ الْجَبَلَيْنِ الْعَظِيمَيْنِ، انْتَهَى حَدِيثُ أَبِي الطَّاهِرِ، وَزَادَ الْآخَرَانِ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: قَالَ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يُصَلِّي عَلَيْهَا ثُمَّ يَنْصَرِفُ، فَلَمَّا بَلَغَهُ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَقَدْ ضَيَّعْنَا قَرَارِيطَ كَثِيرَةً،
ابو طا ہر حرملہ یحییٰ اور ہارون بن سعید ایلی۔۔۔اس روایت کے الفا ظ ہارون اور حرملہ کے ہیں۔۔۔میں سے ہارون نے کہا: ہمیں حدیث سنا ئی اور دو سرے دو نوں نے کہا: ہمیں ابن وہب نے خبر دی، انھوں نے نے کہا: مجھے یو نس نے ابن شہاب سے خبر دی کہا: مجھے عبد الرحمان بن ہر مزا عرج نے حدیث بیان کی کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص جنا زے میں شریک رہا یہاں تک کہ نماز جنا زہ ادا کر لی گئی تو اس کے لیے ایک قیراط ہے اور جو اس (جنازے) میں شریک رہاحتیٰ کہ اس کو دفن کر دیا گیا تو اس کے لیے دو قیراط ہیں۔"پوچھا گیا: دو قیراط سے کہا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دو بڑے پہاڑوں کے مانند۔ابو طا ہر کی حدیث یہاں ختم ہو گئی۔ دوسرے دو اساتذہ نے اضافہ کیا: ابن شہاب نے کہا: سالم بن عبد اللہ بن عمرنے کہا: کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نماز جنازہ پڑھ کر لو ٹ آتے تھے جب ان کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پہنچی تو انھوں نے نے کہایقیناًہم نے بہت سے قیراطوں میں نقصان اٹھا یا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص جنازے میں شریک رہا یہاں تک کہ نماز جنازہ ادا کر لی گئی تو اس کے لیے ایک قیراط اجر ہے اور جو اس کے ساتھ رہا حتی کہ اس کو دفن کر دیا گیا، تو اس کے لیے دو قیراط ثواب ہے۔ پوچھا گیا: دو قیراط سے کہا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو بڑے پہاڑوں کے مانند۔ ابو طاہر کی حدیث یہاں ختم ہو گئی۔دوسرے دو اساتذہ بیان کرتے ہیں کہ سالم بن عبداللہ بن عمر نے کہا: ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نماز جنازہ پڑھ کر لوٹ آتے تھے جب ان کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث پہنچی تو کہنے لگے، ہم نے تو یقیناً بہت سارے قیراط ضائع کر دئیے۔ (ان کےثواب سے محروم رہ گئے)۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1539  
´نماز جنازہ پڑھنے اور دفن تک انتظار کرنے کا ثواب۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے نماز جنازہ پڑھی، اس کو ایک قیراط ثواب ہے، اور جو دفن سے فراغت تک انتظار کرتا رہا، اسے دو قیراط ثواب ہے لوگوں نے عرض کیا: دو قیراط کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو پہاڑ کے برابر۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1539]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جس طرح مسلمانوں کاجنازہ پڑھنا فرض ہے۔
اسی طرح اسے دفن کرنا بھی ضروری ہے۔
ان دونوں کاموں کےلئے عام مسلمانوں کے تعاون کی ضرورت ہے۔
لہٰذا جس طرح ثواب کی نیت سے نماز جنازہ میں شرکت کی کوشش کی جاتی ہے۔
اسی طرح قبر کھودنے، میت کودفن کرنے اور قبر کوبرابر کرنے میں بھی زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی کوشش کرنی چاہیے۔

(2)
جس طرح نماز جنازہ میں میت کےلئے دعا کی جاتی ہے۔
اس طرح دفن کرنے کےبعد بھی اس کی ثابت قدمی کےلئے اور سوالوں کے جواب کی توفیق کےلئے دعا کی جاتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ جب میت کو دفن کرکے فارغ ہوتے تو قبر کے پاس کھڑے ہوکرفرماتے اپنے بھائی کے حق میں دعائے مغفرت کرو۔
اور اس کے لئے ثابت قدمی کی دعا کرو۔
کیونکہ اس سے اب سوال ہورہا ہے۔ (سنن ابی داؤد، الجنائز، باب الاستغفار عند لقبر للمیت فی وقت الانصراف، حدیث: 3221)

(3)
قیراط قدیم دور کی ایک سکہ اور ایک وزن ہے۔
علامہ ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ نے قیراط کو دینار کا بیسواں یا چوبیسواں حصہ قرار دیا ہے۔
دیکھئے: (النھایة، مادہ قرط)
علامہ وحید الزمان رحمۃ اللہ علیہ نے قیراط کا وزن درہم کا بارہواں حصہ بتلایا ہے جس کا انداز ہ دو رتی بیان فرمایا ہے۔
آجکل گرام کے پانچویں حصے (200ملی گرام)
کو قیراط یا کیرٹ کہتے ہیں۔
حدیث میں اس سے مراد ثواب کی ایک خاص مقدار ہے جو پہاڑ کے برابر ہے۔
ایک روایت میں احد پہاڑ کے برابر کے الفاظ بھی وارد ہیں۔
دیکھئے: (سنن ابن ماجة، حدیث: 1540)

(4)
شاگرد کو چاہیے کہ اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو استاد سے پوچھ لے اور استاد کو بھی دوبارہ وضاحت کرنے میں تامل نہیں کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1539   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 461  
´مومن کی نماز جنازہ پڑھنے کا بہت بڑا ثواب ہے`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جنازہ کے ساتھ جائے یہاں تک کہ اس کی نماز پڑھی جائے اسے ایک قیراط کے برابر ثواب ملے گا اور جو شخص دفن ہونے کے وقت تک حاضر رہے اسے دو قیراط کے برابر اجر ملے گا . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 461]
لغوی تشریح:
«قِيرَاطٰ» قاف کے نیچے کسرہ۔ نصف دانق کو قیراط کہتے ہیں اور دانق سے مرار درہم کا چھٹا حصہ ہے۔ قیراط جلدی سمجھ میں آ جانے والا پیمانہ وزن تھا، اس لیے یہ لفظ بولا گیا ہے۔ اس زمانے میں کام کی اجرت قیراط کی صورت میں دی جاتی تھی۔ چونکہ قیراط وزن کے اعتبار سے تو بالکل معمولی اور حقیر ہے، اس لیے آپ نے تنبہیہ فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیراط بڑا عظیم ہے اور یہی بتانا مطلوب و مقصود تھا کہ اسے دنیاوی قیراط نہ سمجھنا بلکہ وہ پہاڑوں جتنا عظیم ہے۔
«إيمَاناً وَّاحْتِسَاباً» دونوں مفعول لہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں۔ معنی یہ ہوئے کہ جنازے میں شرکت کا مقصد صرف طلب اجر و ثواب ہو، کوئی اور غرض نہ ہو۔ دکھلاوا اور اہل میت کے ہاں حاضری لگوانے کی نیت نہ ہو۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دونوں الفاظ حال واقع ہو رہے ہیں، یعنی جنازہ اسی حالت میں پڑھے کہ وہ مومن ہو اور ثواب کے لیے پرامید ہو۔ اس صورت میں «إيِمَانَا وَّاحْتِسَاباً» بمعنی «مُومَناً مُحْتَسِباً» ہوں گے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث میں جنازے کے ساتھ چلنے اور نماز جنازہ ادا کرنے کے ثواب کو تمثیل کے رنگ میں بیان کیا گیا ہے۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ مومن کی نماز جنازہ پڑھنے کا بہت بڑا ثواب ہے۔
➋ اس حدیث میں اہل ایمان کو ترغیب دلائی گئی ہے کہ جنازے میں شرکت کا اہتمام کریں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 461