صحيح مسلم
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- جنازے کے احکام و مسائل
22. باب فِي التَّكْبِيرِ عَلَى الْجَنَازَةِ:
باب: نماز جنازہ میں تکبیروں کا بیان۔
حدیث نمبر: 2210
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ: " إِنَّ أَخًا لَكُمْ قَدْ مَاتَ، فَقُومُوا فَصَلُّوا عَلَيْهِ "، يَعْنِي: النَّجَاشِيَ، وَفِي رِوَايَةِ زُهَيْرٍ: " إِنَّ أَخَاكُمْ ".
زہیر بن حرب، علی بن حجر، اور یحییٰ بن ایوب نے کہا: ہمیں اسماعیل ابن علیہ نے ایوب سے حدیث سنائی، انھوں نے ابو قلابہ سے، انھوں نے ابو مہلب سے اور انھوں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمھارا ایک بھائی وفات پاگیا ہے لہذا تم اٹھو اور اس کی نماز جنازہ ادا کرو۔"آپ کی مراد نجاشی سے تھی۔اور زہیر کی روایت میں ان اخالکم"تمھارا ایک بھائی" کی بجائے) ان اخاکم (تمھارا بھائی) کےالفاظ ہیں۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا بھائی فوت ہو چکا ہے، تو اٹھو اوراس کا جنازہ پڑھو۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد نجاشی تھا، زہیر کی روایت میں إِنَّ أَخَالكُمْ کی بجائے أَخَاكُمْ ہے۔ (مقصد ایک ہی ہے)۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1039  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے نجاشی کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں سے فرمایا: تمہارے بھائی نجاشی ۱؎ کا انتقال ہو گیا ہے۔ تم لوگ اٹھو اور ان کی نماز جنازہ پڑھو۔‏‏‏‏ تو ہم کھڑے ہوئے اور صف بندی کی جیسے میت کے لیے کی جاتی ہے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1039]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
نجاشی حبشہ کے بادشاہ کا لقب تھاجیسے روم کے بادشاہ کا لقب قیصراورایران کے بادشاہ کا لقب کسریٰ تھا،
نجاشی کا وصفی نام اصحمہ بن ابجرتھا اسی بادشاہ کے دورمیں مسلمانوں کی مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت ہوئی تھی،
نبی اکرمﷺ نے 6ھ؁ کے آخر یا محرم 7ھ؁ میں نجاشی کو عمروبن امیہ ضمری کے ذریعہ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی توانہوں نے آپ کے مکتوب گرامی کا بوسہ لیا،
اسے اپنی آنکھوں سے لگایا اوراپنے تخت شاہی سے نیچے اترآیا اورجعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا انہوں نے نبی اکرمﷺکو یہ ساری تفصیل لکھ کر بھیج دی غزوئہ تبوک 9ھ؁ کے بعد ماہ رجب میں ان کی وفات ہوئی۔

2؎:
اس سے بعض لوگوں نے صلاۃِجنازہ غائبانہ کے جواز پراستدلال کیا ہے،
صلاۃِ جنازہ غائبانہ کے سلسلہ میں مناسب یہ ہے کہ اگرمیت کی صلاۃ جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تب پڑھی جائے اوراگرپڑھی جاچکی ہے تو مسلمانوں کی طرف سے فرض کفایہ اداہوگیا الا یہ کہ کوئی محترم اورصالح شخصیت ہو تو پڑھنابہترہے یہی قول امام احمدبن حنبل شیخ الإسلام ابن تیمیہ اور ابن قیم رحہم اللہ کا ہے عام مسلمانوں کا جنازہ غائبانہ نبی اکرمﷺ سے ثابت نہیں ہے اورنہ ہی تعامل امت ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1039   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2210  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

شاہ حبشہ کا لقب نجاشی ہے۔
اور حبشہ کا ہر بادشاہ نجاشی کہلاتا تھا۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مسلمان ہو کر مرنے والا نجاشی اصحمہ تھا جس کی وفات رجب 9ہجری میں ہوئی۔

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی ایسا انسان فوت ہوا جس کا امت مسلمہ کے ہاں مقام ومرتبہ اس کی خوبیوں اور کمالات کی بنا پر تسلیم شدہ ہو کہ سب لوگ اس کے احسان مند ہوں تو اس کا غائبانہ جنازہ پڑھا جائے گا۔
حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس معتدل مؤقف کو اختیار کیا ہے۔
ائمہ اربعہ کا اس بارے میں اختلاف ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک غائبانہ جنازہ جائز ہے کیونکہ بقول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ صلاۃ جنازہ دعا ہے اور دعا موجود اورغائب دونوں کے لیے ہو سکتی ہے۔
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
آپﷺ کی زندگی میں آپ کے بہت سے ساتھی غائبانہ طور پر فوت ہوئے ہیں۔
لیکن آپﷺ نے کسی کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی۔
خلاصہ یہی ہے کہ کسی عظیم شخصیت کی خدمات کے اعتراف کے طور پر نماز جنازہ غائبانہ پڑھنا صحیح ہے اور ہر نیک آدمی کے لیے درست نہیں ہے۔

ائمہ اربعہ کا جنازہ کی چار تکبیرات ہونے پر اتفاق ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2210