صحيح مسلم
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- جنازے کے احکام و مسائل
34. باب الصَّلاَةِ عَلَى الْجَنَازَةِ فِي الْمَسْجِدِ:
باب: مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا۔
حدیث نمبر: 2253
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ يُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا لَمَّا تُوُفِّيَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، أَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَمُرُّوا بِجَنَازَتِهِ فِي الْمَسْجِدِ فَيُصَلِّينَ عَلَيْهِ، فَفَعَلُوا فَوُقِفَ بِهِ عَلَى حُجَرِهِنَّ يُصَلِّينَ عَلَيْهِ، أُخْرِجَ بِهِ مِنْ بَابِ الْجَنَائِزِ الَّذِي كَانَ إِلَى الْمَقَاعِدِ، فَبَلَغَهُنَّ أَنَّ النَّاسَ عَابُوا ذَلِكَ وَقَالُوا: مَا كَانَتِ الْجَنَائِزُ يُدْخَلُ بِهَا الْمَسْجِدَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ عَائِشَةَ فَقَالَتْ: " مَا أَسْرَعَ النَّاسَ إِلَى أَنْ يَعِيبُوا مَا لَا عِلْمَ لَهُمْ بِهِ، عَابُوا عَلَيْنَا أَنْ يُمَرَّ بِجَنَازَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، وَمَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سُهَيْلِ بْنِ بَيْضَاءَ إِلَّا فِي جَوْفِ الْمَسْجِدِ ".
موسیٰ بن عقبہ نے عبدالواحد سے اور انھوں نے عباد بن عبداللہ بن زبیر سے روایت کی، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے پیغام بھیجا کہ ان کے جنازے کو مسجد میں سے گزار کرلے جائیں تا کہ وہ بھی ان کی نماز جنازہ ادا کرسکیں تو انھوں (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے ایسا ہی کیا، اس جنازے کو ان کے حجروں کے سامنے روک (کررکھ) دیا گیا (تاکہ) وہ نماز جنازہ پڑھ لیں۔ (پھر) اس (جنازے) کو باب الجنائز سے، جو مقاعد کی طرف (کھلتا) تھا، باہر نکالا گیا۔اس کے بعد ان (ازواج) کو یہ بات پہنچی کہ لوگوں نے معیوب سمجھا ہے اور کہا ہے: جنازوں کو مسجد میں نہیں لایا جاتا تھا۔یہ بات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تک پہنچی تو انھوں نے فرمایا: لوگوں نےاس کام کو معیوب سمجھنے میں کتنی جلدی کی جس کا انھیں علم نہیں!انھوں نے ہماری اس بات پر اعتراض کیا ہے کہ جنازہ مسجد میں لایاجائے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء رضی اللہ عنہ کا جنازہ مسجد کے اندر ہی پڑھا تھا۔
عباد بن عبداللہ بن زبیر، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے پیغام بھیجا کہ ان کا جنازہ مسجد میں لایا جائے تاکہ وہ بھی ان کی نماز جنازہ پڑھیں لوگوں نے ایسے یہ کیا ہی کیا، جنازہ ان کے حجروں کے سامنے رکھ دیا گیا تاکہ وہ نماز جنازہ پڑھ لیں۔ پھراسے باب الجنائز سے،جو مقاعد بیٹھنے کی جگہیں) کے قریب تھا سے نکالا گیا۔ اور انہیں پتہ چلاکہ لوگوں نے اس پر اعتراض کیا ہے اور کہا ہے جنازوں کو مسجد میں نہیں لایا جاتا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تک بھی اعتراض پہنچا تو انہوں نے فرمایا: کس قدر جلدی لوگ اس کام پر اعتراض کرنے لگٰے ہیں جس کا انہیں علم ہی نہیں ہے ہم پر جنازہ مسجد میں لانے پرعیب (نکتہ چینی) حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنازہ مسجد کے اندر ہی پڑھا تھا۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 452  
´مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دونوں بیٹوں کی نماز جنازہ مسجد میں ادا فرمائی۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 452]
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث میں ان لوگوں کا رد ہے جو مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کو ممنوع قرار دیتے ہیں کیونکہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے۔ علاوہ ازیں طبقات ابن سعد میں ہے کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا جنازہ عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد ہی میں پڑھایا تھا۔ [الطبقات الكبريٰ لابن سعد: 206/3]
نیز مسند سعید بن منصور میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ راشد دوم کا جنازہ بھی حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے مسجد ہی میں پڑھایا تھا۔ [المصنف للعبدالرزاق: 526/3، والسنن الكبري للبيهقي: 52/4]
اور ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے سعد بھی ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا جنازہ مسجد ہی میں پڑھا تھا۔ (المصنف لعبدالرزاق: 527، 526/3) اگر ایسا کرنا ناجائز و مکروہ ہوتا تو خلفائے راشدین اس پر عمل نہ کرتے۔
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے عمل سے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے بغیر کسی کراہت کے مسجد میں جنازہ پڑھا جا سکتا، البتہ مسجد سے باہر پڑھنا افضل اور بہتر ہے۔ واللہ اعلم

وضاحت:
«بيضاء» سہل اور سہیل رضی اللہ عنہ کی والدہ کا لقب ہے۔ ان کا نام دعا بنت جحدم فھریہ ہے۔ اور ان کے خاوند کا نام وہب بن ربیعہ قریشی فہری ہے۔ سہل اور سہیل کی اولاد تھے۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ تو ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے قریش کے اس صحیفے کو پاش پاش کیا تھا جس میں قریش نے بنو ہاشم اور مسلمانوں سے مقاطعہ کی قراردار پاس کی تھی۔ ایک قول کے مطابق انہوں نے اپنے اسلام کے قبول کا اظہار مکہ ہی میں کر دیا تھا۔ اور ایک قول کے مطابق انہوں نے اپنے اسلام لانے کو چھپائے رکھا۔ اسی حالت میں بدر میں زبردستی حاضر کیے گئے۔ مسلمانوں نے انہیں بھی قیدی بنا لیا مگر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے شہادت دی کہ میں نے انہیں مکہ میں نماز پڑھتے دیکھا ہے تو ان کہ شہادت پر آزادی دے دی گئی۔ انہوں نے مدینے میں وفات پائی۔ رہے حضرت سہیل رضی اللہ عنہ تو وہ قدیم الاسلام تھے۔ حبشہ کی ہجرت اور ہجرت مدینہ دونوں میں شریک رہے۔ بدر اور باقی تمام غزوات میں شامل ہوئے۔ غزوہ تبوک 9 ہجری کے بعد مدینہ میں وفات پائی۔ بیضاء کے تین بیٹے مشہور تھے۔ ان دو کے علاوہ تیسرے حضرت صفوان رضی اللہ عنہ تھے جنہوں نے غزوہ بدر میں جام شہادت نوش کیا۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کافی عرصہ بعد وفات پائی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 452   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1518  
´نماز جنازہ مسجد میں پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ مسجد ہی میں پڑھی۔ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث زیادہ قوی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1518]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ کا جواز زیادہ صحیح ہے۔
کیونکہ منع والی حدیث (1517)
کی نسبت جواز والی حدیث (1518)
زیادہ صحیح ہے۔

(2)
رسول اللہ ﷺنے اگرچہ بعض افراد کا جنازہ مسجد میں ادا کیا ہے۔
تا ہم عام طور پر نماز جنازہ باہر میدان میں ادا کیاجاتاتھا۔
جہاں عید وغیرہ بھی پڑھتے تھے۔
یہ جگہ مصلیٰ کہلاتی تھی۔
دیکھئے: (صحیح البخاري، الجنائز، باب الصلاۃ علی الجنائز بالمصلی والمسجد، حدیث: 1328)

(3)
اس حدیث میں ان لوگوں کا رد ہے۔
جو مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کو ممنوع قرار دیتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1518   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1033  
´مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء ۱؎ کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1033]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بیضاء کے تین بیٹے تھے جن کے نام:
سہل سہیل اورصفوان تھے اوران کی ماں کا نام رعدتھا،
بیضاء ان کا وصفی نام ہے،
اوران کے باپ کا نام وہب بن ربیعہ قرشی فہری تھا۔

2؎:
اس سے مسجد میں صلاۃِ جنازہ پڑھنے کا جواز ثابت ہوتاہے،
اگرچہ نبی اکرمﷺ کا معمول مسجد سے باہرپڑھنے کا تھا،
یہی جمہورکا مذہب ہے جولوگ عدام جواز کے قائل ہیں ان کی دلیل ابوہریرہ کی روایت (من صلى على جنازة في المسجد فلا شيء له) ہے جس کی تخریج ابوداؤد نے کی ہے،
جمہوراس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے قابل استدلال نہیں،
دوسرا جواب یہ ہے کہ مشہوراورمحقق نسخے میں (فلا شيء له) کی جگہ (فلا شيء عليه) ہے اس کے علاوہ اس کے اوربھی متعدد جوابات دیئے گئے ہیں دیکھئے: (تحفة الاحوذي:
ج 2 ص 146)

   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1033   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3190  
´مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دونوں بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3190]
فوائد ومسائل:
مسجد میں نماز جنازہ پڑھ لینے میں کوئی حرج کی بات نہیں۔
اور اس میں ان لوگوں کا رد ہے۔
جو میت کو ناپاک خیال کرتے ہیں۔
یا جو لا یعنی اوہام کا شکارہوتے ہیں۔
کہ کہیں اس سے کوئی آلائش نہ نکل آئے۔
تاہم عید گاہ میں پڑھنا افضل ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3190