صحيح مسلم
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- جنازے کے احکام و مسائل
35. باب مَا يُقَالُ عِنْدَ دُخُولِ الْقُبُورِ وَالدُّعَاءِ لأَهْلِهَا:
باب: قبر میں داخل کرتے وقت کیا کہنا چاہئیے اور قبر والوں کے لئے دعا کا بیان۔
حدیث نمبر: 2255
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، وَيَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ شَرِيكٍ وَهُوَ ابْنُ أَبِي نَمِرٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّمَا كَانَ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ إِلَى الْبَقِيعِ، فَيَقُولُ: " السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَأَتَاكُمْ مَا تُوعَدُونَ، غَدًا مُؤَجَّلُونَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ "، وَلَمْ يُقِمْ قُتَيْبَةُ قَوْلَهُ: وَأَتَاكُمْ.
یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، یحییٰ بن ایوب اور قتیبہ بن سعید نے ہمیں حدیث سنائی۔۔۔یحییٰ بن یحییٰ نے کہا: ہمیں خبر دی اور دوسرے دونوں نے کہا: ہمیں حدیث سنائی۔۔۔اسماعیل بن جعفر نے شریک سے، انھوں نے عطاء بن یسار سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، انھوں نے کہا:۔۔۔جس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری ان کے پاس ہوتی تو۔۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں بقیع (کے قبرستان میں) تشریف لے جاتے اور فرماتے: "اے ایمان رکھنے والی قوم کے گھرانے!تم پر اللہ کی سلامتی ہو، کل کے بارے میں تم سے جس کا وعدہ کیا جاتا تھا، وہ تم تک پہنچ گیا۔تم کو (قیامت) تک مہلت دے دی گئی اور ہم بھی، اگر اللہ نے چاہا تم سے ملنے والے ہیں۔اے اللہ!بقیع غرقد (میں رہنے) والوں کو بخش دے۔"قتیبہ نے (اپنی روایت) میں"واتاکم" (تم تک پہنچ گیا) نہیں کہا۔۔۔
امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت نقل کرتےہیں، انہوں نے کہا (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے) جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری میرے ہاں ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصہ میں بقیع (اہل مدینہ کا قبرستان) تشریف لے جاتے اور فرماتے: اے مومنو کے گھر کے باسیو! تم پر اللہ تعالیٰ کی سلامتی نازل ہو۔ جس کا تم سے وعدہ تھا آچکا، کل تک تمہیں مہلت ہے، اور ہم بھی ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اللہ! بقیع غرقد والوں کو معاف فرما۔ اورقتیبہ کی روایت میں اتاكم کا لفظ نہیں ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1546  
´قبرستان میں پہنچ کر کیا دعا پڑھے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے انہیں یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو (ایک رات) غائب پایا، پھر دیکھا کہ آپ مقبرہ بقیع میں ہیں، اور آپ نے فرمایا: «السلام عليكم دار قوم مؤمنين أنتم لنا فرط وإنا بكم لاحقون اللهم لا تحرمنا أجرهم ولا تفتنا بعدهم» اے مومن گھر والو! تم پر سلام ہو، تم لوگ ہم سے پہلے جانے والے ہو، اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں، اے اللہ! ہمیں ان کے ثواب سے محروم نہ کرنا، اور ان کے بعد ہمیں فتنہ میں نہ ڈالنا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1546]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔
اور مزید لکھا ہے کہ اس روایت سے آئندہ آنے والی روایت کفایت کرتی ہے۔
غالباً اسی وجہ سے دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
الحاصل مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔
لیکن دیگر روایات کی وجہ سے معناً صحیح ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 487، 486/47 وصحیح ابن ماجة، رقم: 1266)

(2)
قبروں کی زیارت مسنون ہے۔
تاکہ موت یاد آئے اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوکر آخرت کی طرف توجہ ہوجائے۔

(3)
قبروں کی زیارت جس طرح دن کے وقت کی جا سکتی ہے۔
رات کو بھی جائز ہے۔

(4)
قبروں کی زیارت کا مقصد فوت ہونے والوں کےلئے دعا ہے۔
فوتشدگان سے کچھ مانگنا جائز نہیں۔
کیونکہ وہ لوگ نہ ہماری باتیں سنتےہیں۔
نہ ہماری درخواست قبول کرسکتے ہیں۔

(5)
السلام و علیکم کہنے سے انھیں سنانا مقصود نہیں بلکہ ان کے لئے دعا اور ان کے حال سے عبرت حاصل کرنا مقصود ہے۔
کہ جس طرح یہ لوگ کل ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے۔
آج قبروں میں پڑے ہیں۔
ہم پر بھی عنقریب وہ وقت آنے والا ہے۔
جب ہم اسی طرح دفن ہوجایئں گے اور دوسروں کی دعاؤں کے محتاج ہوں گے۔

(6)
دعا کا آخری جملہ نماز جنازہ کی دعاؤں میں شامل ہے وہاں پڑھنا درست ہے۔
دیکھئے: (سنن ابن ماجة، حدیث: 1498)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1546   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2255  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(غَدًا مُّؤَجَّلُون)
کا مقصد یہ ہے کہ یہاں ابھی مکمل حساب کتاب شروع نہیں ہوا،
اس کے لیے قیامت تک ڈھیل اور مہلت ہے۔
یا دنیا میں جس کل کی مہلت دی گئی تھی وہ آ چکا ہے اورغرقد ایک درخت کا نام ہے جو اہل مدینہ کے قبرستان میں تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2255