صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ -- زکاۃ کے احکام و مسائل
6. باب إِثْمِ مَانِعِ الزَّكَاةِ:
باب: زکوٰۃ نہ دینے کا عذاب۔
حدیث نمبر: 2292
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الْأُمَوِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ ، حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ صَاحِبِ كَنْزٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهُ، إِلَّا أُحْمِيَ عَلَيْهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، فَيُجْعَلُ صَفَائِحَ فَيُكْوَى بِهَا جَنْبَاهُ وَجَبِينُهُ، حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَ عِبَادِهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، ثُمَّ يَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، وَمَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهَا، إِلَّا بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ، كَأَوْفَرِ مَا كَانَتْ تَسْتَنُّ عَلَيْهِ، كُلَّمَا مَضَى عَلَيْهِ أُخْرَاهَا رُدَّتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا، حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَ عِبَادِهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، ثُمَّ يَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، وَمَا مِنْ صَاحِبِ غَنَمٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهَا، إِلَّا بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ، كَأَوْفَرِ مَا كَانَتْ، فَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا لَيْسَ فِيهَا عَقْصَاءُ وَلَا جَلْحَاءُ، كُلَّمَا مَضَى عَلَيْهِ أُخْرَاهَا رُدَّتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا، حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَ عِبَادِهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ، ثُمَّ يَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، قَالَ سُهَيْلٌ: فَلَا أَدْرِي أَذَكَرَ الْبَقَرَ أَمْ لَا؟، قَالُوا: فَالْخَيْلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: الْخَيْلُ فِي نَوَاصِيهَا، أَوَ قَالَ: الْخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيهَا، قَالَ سُهَيْلٌ: أَنَا أَشُكُّ الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، الْخَيْلُ ثَلَاثَةٌ: فَهِيَ لِرَجُلٍ أَجْرٌ، وَلِرَجُلٍ سِتْرٌ، وَلِرَجُلٍ وِزْرٌ، فَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ أَجْرٌ، فَالرَّجُلُ يَتَّخِذُهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَيُعِدُّهَا لَهُ، فَلَا تُغَيِّبُ شَيْئًا فِي بُطُونِهَا إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ أَجْرًا، وَلَوْ رَعَاهَا فِي مَرْجٍ مَا أَكَلَتْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِهَا أَجْرًا، وَلَوْ سَقَاهَا مِنْ نَهْرٍ كَانَ لَهُ بِكُلِّ قَطْرَةٍ تُغَيِّبُهَا فِي بُطُونِهَا أَجْرٌ، حَتَّى ذَكَرَ الْأَجْرَ فِي أَبْوَالِهَا وَأَرْوَاثِهَا، وَلَوِ اسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ كُتِبَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ تَخْطُوهَا أَجْرٌ، وَأَمَّا الَّذِي هِيَ لَهُ سِتْرٌ، فَالرَّجُلُ يَتَّخِذُهَا تَكَرُّمًا وَتَجَمُّلًا، وَلَا يَنْسَى حَقَّ ظُهُورِهَا وَبُطُونِهَا فِي عُسْرِهَا وَيُسْرِهَا، وَأَمَّا الَّذِي عَلَيْهِ وِزْرٌ، فَالَّذِي يَتَّخِذُهَا أَشَرًا وَبَطَرًا وَبَذَخًا وَرِيَاءَ النَّاسِ، فَذَاكَ الَّذِي هِيَ عَلَيْهِ وِزْرٌ، قَالُوا: فَالْحُمُرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيَّ فِيهَا شَيْئًا إِلَّا هَذِهِ الْآيَةَ الْجَامِعَةَ الْفَاذَّةَ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ {7} وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ {8} سورة الزلزلة آية 7-8 "،
عبدالعزیز بن مختار نے کہا: ہمیں سہیل بن ابی صالح نے اپنے والد سے حدیث سنائی، انھوں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نےکہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی بھی خزانے کا مالک نہیں جو اس کی زکاۃ ادا نہیں کرتا، مگر اس کے خزانے کو جہنم کی آگ میں تپایا جائےگا، پھر اس کی تختیاں بنائی جائیں گی اور ان سے اس کے دونوں پہلوؤں اور پیشانی کو داغا جائےگا حتیٰ کہ اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرمادے گا، (یہ) اس دن میں ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے، پھر اسے جنت یا جہنم کی طرف اس کا راستہ دکھا دیاجائے گا۔اور کوئی بھی اونٹوں کا مالک نہیں جو ان کی زکاۃ ادا نہیں کرتا مگر اسے ان (اونٹوں) کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں لٹایا جائے گا جبکہ وہ اونٹ (تعداد اور جسامت میں) جتنے زیادہ سے زیادہ وافر تھے اس حالت میں ہوں گے (وہ) اس کے اوپر دوڑ لگائیں گے۔جب بھی ان میں آ خری اونٹ گزرے گا پہلا اونٹ، اس پر دوبارہ لایا جائےگا، حتیٰ کہ اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرماد ے گا۔ (یہ) ایک ایسے دن میں (ہوگا) جو پچاس ہزار سال کے برابرہوگا، پھر اسے جنت یا دوزخ کی طرف اس کا راستہ دیکھا دیا جائے گا۔اور جو بھی بکریوں کا مالک ان کی زکاۃ ادا نہیں کرتا تو اسے وہ وافر ترین حالت میں جس میں وہ تھیں، ان کے سامنے ایک وسیع وعریض چٹیل میدان میں بچھا (لٹا) دیا جائے گا، وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گی اور اپنے سینگوں سے ماریں گی۔ان میں نہ کوئی مڑے سینگوں والی ہوگی اور نہ بغیر سینگوں کے۔جب بھی آخری بکری گزرے گی اسی و قت پہلی دوبارہ اس پر لائی جائے گی۔حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسے دن میں جو پچاس ہزار سال کے برابر ہے، اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کردے گا۔پھر اسے جنت کا دوزخ کی طرف اس کا راستہ دکھایا جائے گا۔" سہیل نے کہا: میں نے نہیں جانتا کہ آپ نے گائے کا تذکرہ فرمایا یا نہیں۔صحابہ (رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !تو گھوڑے (کا کیا حکم ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن تک خیر، گھوڑوں کی پیشانی میں ہے۔۔۔"یا فرمایا: "گھوڑوں کی پیشانی سے بندھی ہوئی ہے۔۔۔"سہیل نے کہا: مجھے شک ہے۔۔۔ (فرمایا) "گھوڑے تین قسم کے ہیں۔یہ ایک آدمی کے لئے باعث اجر ہیں، ایک آدمی کے لئے پردہ پوشی کا باعث ہیں۔اور ایک کے لئے بوجھ اور گناہ کا سبب ہیں۔وہ گھوڑے جو اس (مالک) کے لئے اجر (کا سبب) ہیں تو (ان کا مالک) وہ آدمی ہے جو انھیں اللہ کے راستے میں (جہاد کے لئے) پالتا ہے۔اور تیار کرتا ہے تو یہ گھوڑے کوئی چیز اپنے پیٹ میں نہیں ڈالتے مگر اللہ اس کی وجہ سے اس کے لئے اجر لکھ دیتاہے۔اگر وہ انھیں چراگاہ میں چراتا ہے تو وہ کوئی چیز بھی نہیں کھاتے۔مگر اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے لئے اجر لکھ دیتا ہے۔اور اگر وہ انھیں کسی نہر سے پانی پلاتا ہے تو پانی کے ہر قطرے کے بدلے جسے وہ اپنے پیٹ میں اتارتے ہیں۔اس کے لئے اجر ہے۔حتیٰ کہ آپ نے ان کے پیشاب اور لید کرنے میں بھی اجر ملنے کا تذکرہ کیا۔۔۔اور اگر یہ گھوڑے ایک یا دو ٹیلوں (کافاصلہ) دوڑیں۔تو اس کے لئے ان کے ہر قدم کے عوض جو وہ اٹھاتے ہیں، اجر لکھ دیا جاتا ہے۔اور وہ انسان جس کے لئے یہ باعث پردہ ہیں تو وہ آدمی ہے جو انھیں عزت وشرف اور زینت کے طور پر رکھتا ہے۔اور وہ تنگی اور آسانی (ہرحالت) میں ان کی پشتوں اور ان کے پیٹوں کا حق نہیں بھولتا۔رہا وہ آدمی جس کے لئے وہ بوجھ ہیں تو وہ شخص ہے جو انھیں ناسپاس گزاری کے طور پر، غرور اور تکبر کرنے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے ر کھتا ہے تو وہی ہے جس کے لئے یہ گھوڑے بوجھ کاباعث ہیں۔"لوگوں نے کہا: اے اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم ! تو گدھے (ان کا کیا حکم ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ان کے بارے میں اس منفرد اور جامع آیت کے سوا کچھ نازل نہیں کیا: "تو جو کوئی زرہ برابر نیکی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا۔"
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بھی خزانے کا مالک اس کی زکاۃ ادا نہیں کرے گا اس کے خزانہ کو جہنم کی آگ میں میں تپایا جائے گا اور اس کی تختیاں بنائی جائیں گی اور ان سے اس کے دونوں پہلوؤں اور پیشانی کو داغا جائےگا حتیٰ کہ اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے گا، اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے، پھر وہ اپنا راستہ جنت یا جہنم کی طرف اس کا راستہ دیکھ لے گا۔ اور کوئی بھی اونٹوں کا مالک نہیں جو ان کی زکاۃ ادا نہیں کرتا مگر اسے ان اونٹوں کے سامنے چٹیل میدان میں لٹایا جائے گا اس کے اوپر دوڑیں گے۔ جب بھی ان میں آخری اونٹ گزرے گا اس پر پہلا اونٹ دوبارہ لایا جائےگا، حتیٰ کہ اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے گا۔ اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے، پھر اسے اس کا راستہ جنت یا دوزخ کی طرف دکھا دیا جائے گا۔ اور جو بھی بکریوں کا مالک ان کی زکاۃ ادا نہیں کرتا تو اسے ان کے سامنے ان کی انتہائی پوری تعداد اور فربہ حالت میں بچھایا جائے گا ایک وسیع وعریض چٹیل میدان میں وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گی اور اپنے سینگوں سے ماریں گی۔ ان میں کوئی مڑے سینگوں والی یا بے سینگوں کے نہیں ہو گی، جب آخری بکری گزرے گی اسی وقت پہلی دوبارہ پہنچ جائے گی۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کر دے گا۔ا س دن میں جس مقدار تمہارے شمار سے پچاس ہزار سال ہو، پھر وہ اپنا راستہ جنت یا دوزخ کی طرف دیکھ لے گا۔ سہیل کا قول ہے، میں نہیں جانتا کہ آپ نے گائیوں کا تذکرہ فرمایا یا نہیں۔ صحابہ(رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! گھوڑے کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھوڑوں کی پیشانی میں یا فرمایا گھوڑوں کی پیشانی سے قیامت تک خیر بندھی ہوئی ہے۔ شک سہیل کو پیش آیا ہے۔ گھوڑے تین قسم کے ہیں۔ یہ ایک آدمی کے لئے اجر و ثواب کا باعث ہیں، اور دوسرے کے لیے بوجھ اور گناہ کا سبب ہیں۔ اور کسی تیسرے آدمی کے لیے ستر (پردہ پوش) ہیں) وہ گھوڑے جو انسانوں کے لیے اجر کا سبب ہیں تو وہ آدمی جو انھیں فی سبیل اللہ رکھتا ہے ارو جہاد کے لیے تیار کرتا ہے تو ان کے پیٹ کے اندر تو کچھ غائب ہوتا ہے اللہ اس کے لیے اسے اجر لکھتا ہے اگر وہ انہیں چراگاہ میں چراتا ہے تو وہ جو کھاتے ہیں اللہ تعالی اس کے لیے اس کے (کھانے) کے عوض اجر لکھتا ہے اور اگر وہ انھیں نہر سے پانی پلاتا ہے تو ہر وہ قطرے جو اس کے پیٹ میں گیا ہے اس کے عوض اجر لکھتا ہے۔ حتیٰ کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیشاب اور لید کے عوض اجر ملنے کا تذکرہ کیا۔ اور اگر یہ ایک یا دو ٹیلے دوڑیں۔ تو اس کے لئے ان کے ہر قدم کے عوض جو وہ اٹھاتے ہیں، اجر لکھ دیا جاتا ہے۔ اور وہ جس کے لئے یہ سترہیں تو وہ آدمی ہے جو انھیں عزت وشرف اور حسن و جمال کی خاطر رکھتا ہے۔ اور ان کی پشتوں اور ان کے پیٹوں میں جو ہے اسے تنگی اور خوشحالی میں نہیں بھولتا۔ رہا وہ آدمی جس کے لئے وہ بوجھ ہیں تو وہ شخص ہے جو انھیں اترانے، سرکشی و طغیانی اور شوخی بگھاڑتے ہیں اور لوگوں کو دکھاوے کے لئے ر کھتا ہے، تو ایسے آدمی کے لئے یہ گھوڑے بوجھ کا باعث ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا، تو گدھوں کا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے مخصوص طور پر مجھ پر کوئی حکم نازل نہیں فرمایا مگر یہ جامع اوریگانہ آیت کے جو ذرہ برابر نیکی کرے گا وہ اسے دیکھے گا۔اور جوذرہ برابربرائی کرے گا وہ اسے دیکھے گا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1786  
´زکاۃ نہ دینے پر وارد وعید کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جن اونٹوں کی زکاۃ نہیں دی گئی وہ آئیں گے اور اپنے مالک کو اپنے پاؤں سے روندیں گے، اور گائیں اور بکریاں آئیں گی وہ اپنے مالک کو اپنے کھروں سے روندیں گی اور اسے سینگوں سے ماریں گی، اور اس کا خزانہ ایک گنجا سانپ بن کر آئے گا، اور اپنے مالک سے قیامت کے دن ملے گا، اس کا مالک اس سے دور بھاگے گا، پھر وہ اس کے سامنے آئے گا تو وہ بھاگے گا، اور کہے گا: آخر تو میرے پیچھے کیوں پڑا ہے؟ وہ کہے گا: میں تیرا خزانہ ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں، آخر مالک اپنے ہاتھ کے ذریعہ اس سے اپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1786]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خزانے سے مراد سونا چاندی وغیرہ ہے جس کی زکاۃ ادا نہیں کی گئی۔

(2)
انسان دنیا میں روپے پیسےکا لالچ کرتا ہے۔
اس کو حاصل کرنے میں حلال و حرام کی پروا نہیں کرتا اور لالچ کی وجہ سے زکاۃ نہیں دیتا۔
اس قسم کا مال قیامت کو عذاب کا باعث ہوگا کہ انسان اس سے جان چھڑانا چاہے گا لیکن وہ نہیں چھوڑے گا۔

(3)
انسان ہاتھ سے مال لیتا ہے لیکن اسی ہاتھ سے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرنا چاہتا، اس لیے ہاتھ کو عذاب ہوگا کہ اس کا خزانہ سانپ بن کر اس کا ہاتھ کاٹ کھائے گا۔
اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے۔
آمین
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1786   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1658  
´مال کے حقوق کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس مال ہو وہ اس کا حق ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے روز اللہ اسے اس طرح کر دے گا کہ اس کا مال جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا پھر اس سے اس کی پیشانی، پسلی اور پیٹھ کو داغا جائے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا ایک ایسے دن میں فیصلہ فرما دے گا جس کی مقدار تمہارے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہو گی، اس کے بعد وہ اپنی راہ دیکھے گا وہ راہ یا تو جنت کی طرف جا رہی ہو گی یا جہنم کی طرف۔ (اسی طرح) جو بکریوں والا ہو اور ان کا حق (زکاۃ) ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے روز وہ بکریاں اس سے زیادہ موٹی ہو کر آئیں گی، جتنی وہ تھیں، پھر اسے ایک مسطح چٹیل میدان میں ڈال دیا جائے گا، وہ اسے اپنی سینگوں سے ماریں گی اور کھروں سے کچلیں گی، ان میں کوئی بکری ٹیڑھے سینگ کی نہ ہو گی اور نہ ایسی ہو گی جسے سینگ ہی نہ ہو، جب ان کی آخری بکری مار کر گزر چکے گی تو پھر پہلی بکری (مارنے کے لیے) لوٹائی جائے گی (یعنی باربار یہ عمل ہوتا رہے گا)، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے اس دن میں جس کی مقدار تمہارے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہو گی، اس کے بعد وہ اپنی راہ دیکھ لے گا یا تو جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔ (اسی طرح) جو بھی اونٹ والا ہے اگر وہ ان کا حق (زکاۃ) ادا نہیں کرتا تو یہ اونٹ قیامت کے دن پہلے سے زیادہ طاقتور اور موٹے ہو کر آئیں گے اور اس شخص کو ایک مسطح چٹیل میدان میں ڈال دیا جائے گا، پھر وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے، جب آخری اونٹ بھی روند چکے گا تو پہلے اونٹ کو (روندنے کے لیے) پھر لوٹایا جائے گا، (یہ عمل چلتا رہے گا) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے گا اس دن میں جس کی مقدار تمہارے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہو گی، پھر وہ اپنی راہ دیکھ لے گا یا تو جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1658]
1658. اردو حاشیہ: سونے چاندی کی اگر زکواۃ ادا نہ کی جائے۔تو وہ باعث وبال کنز بن جاتا ہے۔ جس کازکر سورۃ توبہ میں ہے۔ <قرآن> (وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣٤﴾ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَـٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ)(التوبہ۔3
➍ 35)
اور جو لوگ سونا اور چاندی جوڑ جوڑ کررکھتے ہیں۔اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ان کو دردناک عذاب کی خوشخبری دے دیں۔جس دن کے اسے جہنم کی آگ سے تپایاجائے گا۔پھر ان سے ان کی پیشانیاں ان کے پہلو اور ان کی کمریں داغی جایئں گی۔ (اور کہا جائے گا) یہی ہے وہ جو تم اپنے لئے سینت سینت کر رکھتے تھے۔اب اسے جوڑنے کا مزہ چکھو
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1658   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2292  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
نوَاص:
نَاصِيَةکی جمع ہے پیشانی۔
(2)
الخير:
مال،
نیکی و بہتری،
مراد اجر و غنیمت ہے۔
(3)
تكرماً و تجملاً:
دوسروں سے اپنی عزت و شرف کو بچانے کے لیے اور اپنے حسنِ خصال اور خوبی کے اظہار کے لیے کہ سواری کسی سے مانگنی نہ پڑے اور ضرورت کے وقت کسی کو دے سکے۔
(4)
اشراً:
اترانا۔
(5)
بطراً:
حق سے سرکشی اور طغیان اختیار کرنا۔
(6)
البذخ:
فخر و گھمنڈ اور بڑائی کا اظہار کرنا۔
فوائد ومسائل:
گھوڑا ایک اعلیٰ اور بہترین سواری ہے اس سے جائز وناجائز ہر قسم کے کام لیے جا سکتے ہیں اور اس کا سب سے بہتر استعمال یہ کہ اسے جہاد میں استعمال کیا جائے اور قیامت تک اس کا یہ استعمال برقرار رہے گا۔
گویا قیامت تک جہاد میں استعمال ہو کر مالک کے لیے اجر وغنیمت کا باعث بنتا رہے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2292