صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ -- زکاۃ کے احکام و مسائل
15. باب وُصُولِ ثَوَابِ الصَّدَقَةِ عَنِ الْمَيِّتِ إِلَيْهِ:
باب: میت کے ایصال ثواب کا بیان۔
حدیث نمبر: 2326
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّيَ افْتُلِتَتْ نَفْسَهَا وَلَمْ تُوصِ، وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، أَفَلَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟، قَالَ: " نَعَمْ "،
محمد بن بشر نے کہا: ہم سے ہشام نے اپنے والد کے حوالے سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث بیان کی کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میری والدہ اچانک وفات پاگئی ہیں اور انھوں نے کوئی وصیت نہیں کی، میرا ان کے بارے میں گمان ہے کہ اگر بولتیں تو وہ ضرور صدقہ کرتیں، اگر (اب) میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا انھیں اجر ملے گا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری والدہ اچانک وفات پا گئی ہے اور اس نے کسی قسم کی وصیت نہیں کی۔ میرا خیال ہے اگر اس کو بات چیت کا موقعہ ملتا تو وہ صدقہ کرتی۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اسے اجر ملے گا؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2717  
´کوئی شخص وصیت کیے بغیر مر جائے تو کیا اس کی طرف سے صدقہ دیا جائے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا، اور اس نے عرض کیا: میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا، اور وہ وصیت نہیں کر سکیں، میرا خیال ہے کہ اگر وہ بات چیت کر پاتیں تو صدقہ ضرور کرتیں، تو کیا اگر میں ان کی جانب سے صدقہ کروں تو انہیں اور مجھے اس کا ثواب ملے گا یا نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں (ملے گا)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2717]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
انسان کو مرنے کے بعد جس طرح ان اعمال کا ثواب پہنچتا رہتا ہے جو اس نے زندگی میں کیے تھے اور ان کےنیک اثرات بعد میں جاری رہے، اسی طرح اس صدقے وغیرہ کا ثواب بھی پہنچتا ہے جو والدین کی وفات کے بعد اولاد ان کی طرف سے کرے۔

(2)
فوت شدہ والدین کی طرف سے صدقے کےلیے یہ شرط نہیں کہ انہوں نے وصیت کی ہو۔

(3)
آج کل ایصال ثواب کے نام سے جو محفلیں برپا کی جاتی ہیں اور کھانے کھلائے جاتے ہیں ان کی حیثیت محض ایک رسم کی ہے۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ خاموشی سے کسی مستحق کی مناسب امداد کردی جائے۔

(4)
قرض اور دوسرے مالی حقوق کی ادائیگی میں جس طرح زندگی میں نیابت ممکن ہے، اسی طرح وفات کے بعد بھی کسی کا قرض دوسرا آدمی ادا کردے تو فوت شدہ شخص برئ الذمہ ہو جاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2717   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 820  
´وصیتوں کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میری والدہ اچانک وفات پا گئی ہیں اور انہوں نے کوئی وصیت نہیں کی۔ میرا اس کے بارے میں خیال ہے کہ اگر وہ کوئی گفتگو کرتیں تو صدقہ (ضرور) کرتیں۔ کیا انہیں ثواب ملے گا اگر میں ان کی جانب سے صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں (بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 820»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الوصايا، باب ما يستحب لمن توفي فجأة أن يتصدقوا عنه.....، حديث:2760، ومسلم، الزكاة، باب وصول ثواب الصدقة عن الميت إليه، حديث:1004.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولاد کی جانب سے صدقے کا ثواب والدین کو پہنچتا ہے اور بغیر وصیت کے صدقہ کرنا بھی جائز ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 820