صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ -- کتاب: علم کے بیان میں
23. بَابُ الْفُتْيَا وَهُوَ وَاقِفٌ عَلَى الدَّابَّةِ وَغَيْرِهَا:
باب: جانور وغیرہ پر سوار ہو کر فتویٰ دینا جائز ہے۔
حدیث نمبر: 83
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بِمِنًى لِلنَّاسِ يَسْأَلُونَهُ فَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: لَمْ أَشْعُرْ فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ؟ فَقَالَ: اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ، فَجَاءَ آخَرُ، فَقَالَ: لَمْ أَشْعُرْ فَنَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ؟ قَالَ: ارْمِ وَلَا حَرَجَ، فَمَا سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ إِلَّا قَالَ: افْعَلْ وَلَا حَرَجَ".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے مالک نے ابن شہاب کے واسطے سے بیان کیا، وہ عیسیٰ بن طلحہ بن عبیداللہ سے روایت کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن عمرو بن العاص سے نقل کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے مسائل دریافت کرنے کی وجہ سے منیٰ میں ٹھہر گئے۔ تو ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں نے بےخبری میں ذبح کرنے سے پہلے سر منڈا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اب) ذبح کر لے اور کچھ حرج نہیں۔ پھر دوسرا آدمی آیا، اس نے کہا کہ میں نے بےخبری میں رمی کرنے سے پہلے قربانی کر لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اب) رمی کر لے۔ (اور پہلے کر دینے سے) کچھ حرج نہیں۔ ابن عمرو کہتے ہیں (اس دن) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس چیز کا بھی سوال ہوا، جو کسی نے آگے اور پیچھے کر لی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ اب کر لے اور کچھ حرج نہیں۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 329  
´حج میں لازمی عمل بھول جائے یا ترک کر دے تو دم ضروری ہے`
«. . . قال: فما سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن شيء قدم ولا اخر إلا قال: افعل ولا حرج . . .»
. . . اس دن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس چیز کے بارے میں پوچھا گیاجس میں تقدیم و تاخیر ہو گئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا کہ کر لو اور کوئی حرج نہیں ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 329]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 83، 1736، ومسلم 1306، من حديث مالك به]

تفقه
➊ اگر لاعلمی کی وجہ سے کنکریاں مارنے یا قربانی کرنے میں کوئی تقدیم و تاخیر ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے اور کوئی دم (بکری ذبح کرنا) واجب نہیں ہے۔
➋ علم ہونے کے بعد اگر کوئی لازمی عمل ترک ہو گیا تو دم دینا پڑے گا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے:
«من نسي من نسكه شيئًا أو تركه فليهرق دمًا»
جو شخص اپنے حج و عمرہ سے کوئی (لازمی) عمل بھول جائے یا ترک کر دے تو اس شخص پر دم ہے یعنی اسے بکری ذبح کر کے مساکین حرم میں تقسیم کرنی پڑے گی۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 5/30 وسنده صحيح، الموطأ للامام مالك 1/419 ح968 وسنده صحيح]
➌ ایک حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی حاجی قربانی والے دن (10 ذوالحجہ) شام سے پہلے طواف نہ کر سکے تو اس پر (احرام کی) ساری پابندیاں دوبارہ لوٹ آئیں گی یعنی اسے طواف زیارت تک دوبارہ احرام باندھنا پڑے گا۔ دیکھئے: [سنن ابي داؤد 1999 وسنده حسن وصححه ابن خزيمه 2958]
➍ اہل علم کو چاہئے کہ ایام حج (اور اس سے پہلے اور بعد) میں لوگوں کو کتاب و سنت اور دلائل شرعیہ کے مطابق علمی باتیں بتائیں۔
➎ اس پر اجماع ہے کہ حاجی اور عمرہ کرنے والا حالت احرام میں اپنے بال نہیں کاٹے گا اور نہ کٹوائے گا۔ اگر کسی شرعی عذر کی وجہ سے بال کٹوانے پڑے تو دم دینا پڑے گا۔
➏ جمرۂ عقبہ کو کنکریاں مارنے کے بعد سر کے بالوں کا حلق کرنا (منڈوانا) افضل ہے اور بال کترانا جائز ہے۔
➐ حج و عمرے کے تفصیلی مسائل کے لئے میری (مترجَم ومحقَق) کتاب حاجی کے شب وروز دیکھیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 66   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 124  
´رمی جمار کے وقت بھی مسائل دریافت کرنا جائز ہے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الْجَمْرَةِ وَهُوَ يُسْأَلُ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، قَالَ: ارْمِ وَلَا حَرَجَ، قَالَ آخَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ، قَالَ: انْحَرْ وَلَا حَرَجَ، فَمَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ إِلَّا قَالَ: افْعَلْ وَلَا حَرَجَ . . .»
. . . عبداللہ بن عمرو سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمی جمار کے وقت دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جا رہا تھا تو ایک شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں نے رمی سے قبل قربانی کر لی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اب) رمی کر لو کچھ حرج نہیں ہوا۔ دوسرے نے کہا، یا رسول اللہ! میں نے قربانی سے پہلے سر منڈا لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اب) قربانی کر لو کچھ حرج نہیں۔ (اس وقت) جس چیز کے بارے میں جو آگے پیچھے ہو گئی تھی، آپ سے پوچھا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہی جواب دیا (اب) کر لو کچھ حرج نہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ السُّؤَالِ وَالْفُتْيَا عِنْدَ رَمْيِ الْجِمَارِ: 124]

تشریح:
(تعصب کی حد ہو گئی) امام بخاری قدس سرہ کا مقصد ظاہر ہے کہ رمی جمار کے وقت بھی مسائل دریافت کرنا جائز ہے۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بھی سوالات کئے گئے «الدين يسر» کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقدیم و تاخیر کو نظر انداز کرتے ہوئے فرما دیا کہ جو کام چھوٹ گئے ہیں ان کو اب کر لو، تو کوئی حرج نہیں ہے۔ بات بالکل سیدھی اور صاف ہے مگر تعصب کا برا ہو صاحب انوار الباری کو ہر جگہ یہی نظر آتا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ یہاں بھی محض احناف کی تردید کے لیے ایسا لکھ رہے ہیں۔ ان کے خیال ناقص میں گویا جامع صحیح از اول تا آخر محض احناف کی تردید کے لیے لکھی گئی ہے، آپ کے الفاظ یہ ہیں:
احقر (صاحب انوار الباری) کی رائے ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ حسب عادت جس رائے کو اختیار کرتے ہیں چونکہ بقول حضرت شاہ صاحب اسی کے مطابق احادیث لاتے ہیں اور دوسری جانب کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اسی لیے ترتیب افعال حج کے سلسلہ میں چونکہ وہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے سے مخالف ہیں اس لیے اپنے خیال کی تائید میں جگہ جگہ حدیث «الباب افعل ولاحرج» کو بھی لائے ہیں۔ [انوار الباري،جلد4،ص: 104]
معلوم ہوتا ہے کہ صاحب انوارالباری کو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے دل کا پورا حال معلو ہے، اسی لیے تووہ ان کے ضمیر پر یہ فتویٰ لگا رہے ہیں۔ اسلام کی تعلیم تھی کہ مسلمان آپس میں حسن ظن سے کام لیا کریں، یہاں یہ سوء ظن ہے۔ استغفراللہ۔

آگے صاحب انوارالباری مزید وضاحت فرماتے ہیں:
آج اس ہی قسم کے تشدّد سے ہمارے غیرمقلد بھائی اور حرمین شریفین کے نجدی علماء ائمہ حنفیہ کے خلاف محاذ بناتے ہیں، حنفیہ کو چڑانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی یک طرفہ احادیث پیش کیا کرتے ہیں۔ [حواله مذكور]
صاحب انوارالباری کے اس الزام پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے قاعدہ ہے «المرء يقيس على نفسه» (انسان دوسروں کو بھی اپنے نفس پر قیاس کیا کرتا ہے) چونکہ اس تشدد اور چڑانے کا منظر کتاب انوار الباری کے بیشتر مقامات پر ظاہر و باہر ہے اس لیے وہ دوسروں کو بھی اسی عینک سے دیکھتے ہیں، حالانکہ واقعات بالکل اس کے خلاف ہیں۔ مقام صد شکر ہے کہ یہاں آپ نے اپنی سب سے معتوب جماعت اہل حدیث کو لفظ غیرمقلد بھائی سے تو یاد فرمایا۔ اللہ کرے کہ غیرمقلدوں کو یہ بھائی بنانا برادران یوسف کی نقل نہ ہو اور ہمارا تو یقین ہے کہ ایسا ہرگز نہ ہو گا۔ اللہ پاک ہم سب کو ناموس اسلام کی حفاظت کے لیے اتفاق باہمی عطا فرمائے۔ سہواً ایسے موقع پر اتنی تقدیم و تاخیر معاف ہے۔ حدیث کا یہی منشا ہے، حنفیہ کو چڑانا حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا منشاء نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 124   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 631  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں ایک مقام پر کھڑے ہو گئے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے شروع کیے۔ کسی نے کہا کہ مجھے علم نہیں تھا اور میں نے قربانی سے پہلے حجامت بنوا لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا قربانی کرو، کوئی حرج نہیں اور ایک آدمی نے عرض کیا مجھے معلوم نہیں تھا اور میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کر لی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا اب کنکریاں مار لے، کوئی حرج نہیں اس روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی عمل کے مقدم و مؤخر کرنے کے متعلق استفسار پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اب کر لو، کوئی حرج نہیں۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 631]
631لغوی تشریح:
«وقف فى حجة الوداع» دسویں ذی الحجہ کو زوال آفتاب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر جمرہ کے پاس خطاب فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے۔
«لم اشعر» «اشعر» میں عین پر ضمہ ہے۔ یعنی مجھے اس کا علم نہیں ہوا۔ میں سمجھ نہ سکا۔
«قدم ولا اخر» یہ دونوں باب تفعیل سے مجہول کے صیغے ہیں۔ یاد رہے کہ قربانی کے روز حجاج کرام کے ذمے چار کام بالترتیب انجام دینے ہوتے ہیں۔ پہلا کام جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنا، دوسرا قربانی کرنا، تیسرا سر منڈانا یا بال کٹوانا اور چوتھا طواف افاضہ۔ علماء کا اس پر تو اتفاق و اجماع ہے کہ یہ ترتیب شرعی طور پر مطلوب و مقصود ہے لیکن ان کے درمیان بعض معمولات کے آگے پیچھے ہونے کے جواز میں اختلاف ہے۔ اسے طرح یہ ترتیب آگے پیچھے ہونے پر وجوب دم میں بھی اختلاف ہے اور اس حدیث سے ان حضرات کی تائید ہوتی ہے جو تقدیم و تاخیر کے جواز کے قائل ہیں اور دم کے بھی قائل نہیں ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 631   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:83  
83. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ میں ان لوگوں کے لیے کھڑے تھے جو آپ سے مسائل پوچھ رہے تھے۔ ایک شخص آیا اور کہنے لگا: مجھے خیال نہیں رہا، میں نے قربانی سے پہلے اپنا سر منڈوا لیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اب ذبح کر لو کچھ مضائقہ نہیں۔ پھر ایک شخص آیا اور عرض کیا: لاعلمی سے میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی ہے؟ آپ نے فرمایا: اب رمی کر لو، کوئی حرج نہیں۔ (عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں:) اس دن آپ سے جس بات کی بابت بھی پوچھا گیا جو کسی نے پہلے کر لی یا بعد میں، تو آپ نے فرمایا: اب کر لو کچھ حرج نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:83]
حدیث حاشیہ:

ایک حدیث میں ہے کہ جانوروں کی پشت سےمنبر کا کام نہ لو۔
(سنن ابي داؤد، الجھاد، حدیث: 2567)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بحالت سواری وعظ کہنا، فتویٰ دینادرست نہیں۔
دونوں روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ اسے عادت نہیں بنانا چاہیے کہ خواہ مخواہ جانوروں کی پیٹھ پر بیٹھ کر تقریر کی جائے، اس سے بچنا افضل ہے، تاہم ضرورت کے وقت اس کاجواز ہے۔
اگرچہ فتویٰ دینے کے لیے مفتی کا کسی مقام پر اطمینان کے ساتھ بیٹھنا بہتر ہے اور احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے لیکن کھڑے کھڑے یا چلتے پھرتے کسی سائل کومسئلہ بتا دینا بھی جائز ہے، البتہ چلتے پھرتے یا سواری پر بیٹھے ہوئے درس وتدریس کا جواز کشید نہیں کیا جاسکتا کیونکہ تعلیم و تدریس کی شان فتویٰ وغیرہ سے بالکل الگ ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان ثابت کرنے کے لیے جو حدیث پیش کی ہے اس میں دابة(جانور)
کا ذکر نہیں ہے۔
البتہ اس عنوان کی دوسری روایات میں یہ لفظ موجود ہے۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1738)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بکثرت ایسا کرتے ہیں کہ غیر مذکور الفاظ کومدنظر رکھتے ہوئے اس سے مسائل کا استخراج کرتے ہیں۔

یوم نحر میں چار اعمال ہیں:
رمی، ذبح، حلق اور طواف زیارت، خلاف ترتیب عمل کی صورت میں نہ کفارہ دینا ضروری ہے اور نہ اخروی نقصان اور گناہ ہی ہے۔
آخرحدیث میں راوی کا بیان ہے کہ تقدیم وتاخیر کے متعلق جس قدر بھی سوالات ہوئے سب کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا کہ جوعمل رہ گیا ہے، اسے اب بجا لاؤ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مکمل بحث کتاب الحج میں آئے گی۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کے د و اجزاء ہیں۔
(الف)
۔
وقوف علی الدابة۔
(ب)
۔
وقوف علی غیر دابة۔
اس حدیث سے دوسرا جز ثابت ہوگیا۔
اس سے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے مؤقف کا اثبات ہوتا ہے کہ علم کو وقار اور اطمینان سے پڑھانا چاہیے۔
اسی طرح راستہ چلتے ہوئے فتویٰ نہیں دینا چاہیے، لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مؤقف ہے کہ اتنی شرائط نہ لگائی جائیں کہ کوئی سائل ہنگامی مسئلہ دریافت ہی نہ کرسکے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 83