صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ -- زکاۃ کے احکام و مسائل
27. باب فَضلِ مَنْ ضَمَّ إِلَی الصَّدَقَةِ غَيرَهَا مِن أَنوَاعِ البِرِّ
باب: صدقہ کے ساتھ اور نیکی ملانے والے کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2371
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، واللفظ لأبي الطاهر، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، نُودِيَ فِي الْجَنَّةِ يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا خَيْرٌ، فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلَاةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلَاةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجِهَادِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الْجِهَادِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الرَّيَّانِ "، قَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا عَلَى أَحَدٍ يُدْعَى مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ، فَهَلْ يُدْعَى أَحَدٌ مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ كُلِّهَا؟، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ "،
یونس نے ابن شہاب سے، انھوں نے حمید بن عبدالرحمان سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جس نے اللہ کی راہ میں دو دو چیزیں خرچ کیں اسے جنت میں آواز دی جائے گی کے اے اللہ کے بندے!یہ (دروازہ) بہت اچھا ہے۔ (کیونکہ وہ دوسرے میں سے جانے کا حقدار بھی ہوگا) جو نماز پڑھنے والوں میں سے ہوگا، اسے نماز کے دروازے سے پکارا جائے گا، جو جہاد کرنے والوں میں سے ہوگا، اسے جہاد کے دروازے سے پکارا جائے گا، جو صدقہ دینے والوں میں سے ہوگا، اسے صدقے والے دروازے سے پکارا جائے گا، اور جو روزہ داروں میں سے ہوگا، اسے باب ریان (سیرابی کے دروازے) سے پکارا جائے گا۔"ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کسی انسان کو ان تمام دروازوں سے پکارے جان کی ضرورت تو نہیں ہے لیکن کیا کوئی ایسا بھی (خوش نصیب) ہوگا جسے ان تمام دروازوں سے بلا یا جائے گا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ہاں، اور مجھے امید ہے تم انھی میں سے ہوگے۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ کی راہ میں جوڑا خرچ کیا۔ اسے جنت میں آواز دی جائے گی کہ اے اللہ کے بندے (ادھر آؤ) تیرے لیے خیرو خوبی ہے یعنی اس دروازہ سے داخلہ تیرے حق میں بہتر ہے جسے نماز سے شغف و پیار ہو گا اسے باب الصلاۃ (نماز کا دروازہ) سے پکارا جائےگا۔ اور جسے جہاد کا شوق ہوگا اسے جہاد کے دروازہ سے پکارا جائے گا اور جو اہل صدقہ سے ہو گا اسے باب صدقہ سے بلایا جائے گا اور جو روزہ داروں میں سے ہو گا۔ اسے سیرابی کے دروازہ سے پکارا جائے گا۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کسی انسان کو ان تمام دروازوں سے پکارے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔(کیونکہ داخل تو ایک ہی دروازہ سے ہوتا ہے) تو کیا کوئی ایسا بھی خوش نصیب ہے) جسے تمام دروازوں سے بلایا جائے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اور مجھے امید ہے آپ انہیں میں سے ہوں گے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 244  
´روزے دار کی فضیلت`
«. . . ان النبى صلى الله عليه وسلم قال: من انفق زوجين فى سبيل الله نودي فى الجنة: يا عبد الله هذا خير. فمن كان من اهل الصلاة دعي من باب الصلاة، ومن كان من اهل الجهاد دعي من باب الجهاد، ومن كان من اهل الصدقة دعي من باب الصدقة، ومن كان من اهل الصيام دعي من باب الريان فقال ابو بكر: ما على من يدعى من هذه الابواب من ضرورة، فهل يدعى احد من هذه الابواب كلها؟ قال: نعم، وارجو ان تكون منهم . . .»
. . . نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کے راستے میں دو چیزیں (جوڑا) خرچ کرے گا تو جنت میں اس سے کہا جائے گا: اے عبداللہ! یہ (دروازہ) بہتر ہے۔ نماز پڑھنے والے کو نماز والے دروازے سے، جہاد کرنے والے کو جہاد والے دروازے سے، صدقات دینے والے کو صدقے والے دروازے سے اور روزہ رکھنے والے کو باب الریان (روزے والے دروازے) سے بلایا جائے گا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: جسے ان دروازوں میں سے بلایا جائے اسے اس کے بعد کوئی اور ضرورت تو نہیں مگر کیا کوئی ایسا بھی ہوگا جسے ان سب دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اور میرا خیال ہے کہ آپ بھی ان لوگوں میں سے ہوں گے (جنہیں ان سب دروازوں میں سے بلایا جائے گا) . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 244]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1897، من حديث مالك به ورواه مسلم 1027، من حديث ابن شهاب الزهري به]

تفقه:
➊ خلیفہ اول بلافصل سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کی بہت بڑی فضیلت ہے کہ انہیں جنت کے تمام دروازوں سے جنت میں داخلے کی دعوت دی جائے گی۔
➋ روزے دار کی فضیلت کہ اس کے لئے خاص دروازے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
➌ جنت میں داخلے کے لئے عقیدہ صحیحہ، اعمال صالحہ اور اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہونا ضروری ہے۔
➎ اللہ تعالیٰ کے راستے میں، اسے راضی کرنے کے لئے انتہائی قیمتی چیز کا نذرانہ پیش کرنا چاہئے۔
➏ ہر وقت نیکیوں میں مسابقت کی کوشش کرنی چاہئے۔
➐ اس سے جہاد فی سبیل اللہ اور صدقہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 31   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2371  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

(مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ)
مختلف معانی ہو سکتے ہیں۔

جس نے جوڑا خرچ کیا یعنی دو گھوڑے،
دو غلام،
دو اونٹ،
دونوٹ۔

دو قسم کا مال خرچ کیا یعنی درہم اور دینار درہم اور کپڑا دینار اور جانور۔

جس نے اتفاق (خرچ کرنا)
کو عادت بنا لیا اور یہ کام بار بار کرتا رہا جیسا کہ قرآن مجید ہے:
﴿ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ﴾ نظر بار بار دوڑائیے پہلا معنی راجح ہے کیونکہ بعض روایات میں دو اونٹ،
دو بکریاں،
دو درہم کی تصریح آئی ہے۔
(2)
ایک انسان جو تمام اوامرونواہی کی پابندی کرتا ہے تمام حدود قیود شرعی کا اہتمام کرتا ہے۔
لیکن اپنی طبعی مناسبت اور مذاق کی وجہ سے کسی خاص نیکی کا اس پر غلبہ ہے اور وہ اسے فرض حد سے بڑھ کر بار بار ادا کرتا ہے۔
کسی کو نفلی صدقہ وخیرات سے پیار ہے اور کوئی کو نفلی روزے کثرت سے رکھتا ہے اور کوئی بار بار جہاد کے لیے گھر سے نکلتا ہے کوئی حج کا باربار اہتمام کرتا ہے تو وہ صرف ان اعمال خیر کے دروازہ سے گمنامی اور خاموشی سے داخل نہیں ہو گا۔
بلکہ اس کو اس کے مخصوص دروازہ سے تکریم و تعظیم کے لیے آواز دی جائے گی کہ ادھر آؤ تمھارے لیے ادھر بہتری اور خوبی ہے۔
(3)
بعض خوش نصیب افراد تمام امور خیر سے دلچسپی رکھتے ہیں اور ان سب کا حتی الوسع اہتمام کرتے ہیں تو ان کی تعظیم و توقیر کے لیے ہر دروازہ ان کے لیے سراپا پکار ہو گا۔
اور ہر دروازہ خواہش کرے گا۔
کہ یہ مجھ سے داخل ہو اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان ہی خوش نصیب افراد میں سے ہیں۔
اس صحیح امر صریح حدیث کے باوجود بھی جو ان سے کدورت و بغض رکھتے ہیں وہ اپنے انجام کی فکر کریں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2371