صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ -- زکاۃ کے احکام و مسائل
32. باب بَيَانِ أَنَّ الْيَدَ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى وَأَنَّ الْيَدَ الْعُلْيَا هِيَ الْمُنْفِقَةُ وَأَنَّ السُّفْلَى هِيَ الآخِذَةُ.
باب: صدقہ دینا افضل ہے لینا افضل نہیں۔
حدیث نمبر: 2388
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا شَدَّادٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا ابْنَ آدَمَ إِنَّكَ أَنْ تَبْذُلَ الْفَضْلَ خَيْرٌ لَكَ، وَأَنْ تُمْسِكَهُ شَرٌّ لَكَ، وَلَا تُلَامُ عَلَى كَفَافٍ، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى ".
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " آدم کے بیٹے!بے شک تو (ضرورت سے) زائد مال خرچ کر دے یہ تیرے لیے بہتر ہے اور تو اسے رو ک رکھے تو یہ تیرے لیے برا ہے اور گزر بسر جتنا رکھنے پر تمھیں کوئی ملا مت نہیں کی جا ئے گی اور خرچ کا آغاز ان سے کرو جن کے (کےخرچ) تم ذمہ دار ہو اور اوپر والا ہا تھ نیچے والے ہا تھ سے بہتر ہے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے آدم کے فرزند! اللہ کی دی ہوئی دولت جو اپنی ضرورت سے زائد ہو اس کا خرچ کر دینا ہی تیرے لیے بہتر ہے۔ اور اس کو روکنا تیرے لیے برا ہے اور گزارے کے بقدر رکھنے پر تم پر کوئی ملامت نہیں اور سب سے پہلے ان پر خرچ کرو۔ جن کے نان و نفقہ کی تم پر ذمہ داری ہے اور اوپر والا ہاتھ نچلے ہاتھ سے بہتر ہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2343  
´سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب۔`
ابوامامہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن آدم! اگر تو اپنی حاجت سے زائد مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا تو یہ تیرے لیے بہتر ہو گا، اور اگر تو اسے روک رکھے گا تو یہ تیرے لیے برا ہو گا، اور بقدر کفاف خرچ کرنے میں تیری ملامت نہیں کی جائے گی اور صدقہ و خیرات دیتے وقت ان لوگوں سے شروع کر جن کی کفالت تیرے ذمہ ہے، اور اوپر والا (دینے والا) ہاتھ نیچے والے ہاتھ (مانگنے والے) سے بہتر ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2343]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مفہوم یہ ہے کہ اگراللہ نے تمہیں مال ودولت سے نوازا ہے تو اس سے اپنی اوراپنے اہل وعیال کی ضرورت وحاجت کا خیال رکھو اورضرورت سے زائد مال حاجتمندوں اورمستحقین کے درمیان تقسیم کردوکیونکہ جمع خوری کا نتیجہ دنیا اورآخرت دونوں جگہ صحیح نہیں،
جمع خوری سے معاشرے میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں،
اورآخرت میں بخل کا جوانجام ہے وہ بالکل واضح ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2343   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2388  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آدمی کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ جو دولت کمائے یا کسی زریعہ سے اسے ملے اس میں سے اپنی اور اپنے زیر کفالت افراد کی ضرورت کے بقدر رکھ لے اور باقی نیک کاموں میں یا اللہ کے بندوں پر خرچ کر دے اور اس کی کوشش میں ہو کر وہ دینے والا بنے لینے والا نہ بنے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2388