صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ -- زکاۃ کے احکام و مسائل
40. باب فَضلِ القنَاعَةِ وَالحَثِّ عَلَيهَا
باب: قناعت کی فضیلت اور اس کی ترغیب کا بیان۔
حدیث نمبر: 2420
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ، وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ ".
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "غنا مال و اسباب کی کثرت سے نہیں بلکہ حقیقی غنا دل کی بے نیا زی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دولت مندی و دولت یا مال و اسباب کی کثرت سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ حقیقی دولت مندی دل کی بے نیازی ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4137  
´قناعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مالداری دنیاوی ساز و سامان کی زیادتی سے نہیں ہوتی، بلکہ اصل مالداری تو دل کی بے نیازی اور آسودگی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4137]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
انسان دولت اس لیے حاصل کرتا ہے کہ اس کے کام چلتے رہیں لیکن جب دولت خود مقصود بن جائے تو پھر مال ودولت کی کثرت کے باوجود سکون واطمینان حاصل نہیں ہوتا جس کے لیے کوشش کی جاتی ہے۔

(2)
قناعت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے پاس موجودہ رزق کو کافی سمجھےاور اپنی ضروریات کو اس حد تک محدود کرلے کہ حلال روزی میں گزارا ہوجائے۔

(3)
دولت مند وہ ہے جس کا دل دولت مند ہے۔
اور دولت مند تب ہوتا ہے جب اس میں حرص وبخل نہ ہو۔
ایسا آدمی تھوڑے سے مال سے اتنی خوشی حاصل کرلیتا ہے جو حریص کو بہت زیادہ مال سے بھی حاصل نہیں ہوتی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4137   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2373  
´دل کی بے نیازی اور استغناء اصل دولت ہے`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مالداری ساز و سامان کی کثرت کا نام نہیں ہے، بلکہ اصل مالداری نفس کی مالداری ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2373]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
انسان کے پاس جوکچھ ہے اسی پرصابروقانع رہ کردوسروں سے بے نیازرہنا اور ان سے کچھ نہ طلب کرنادرحقیقت یہی نفس کی مالداری ہے،
گویا بندہ اللہ کی تقسیم پر راضی رہے،
دوسرں کے مال ودولت کوللچائی ہوئی نظرسے نہ دیکھے اور زیادتی کی حرص نہ رکھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2373   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2420  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
تونگری اور محتاجی،
خوشحالی اور بدحالی کا تعلق روپیہ پیشہ اور مال واسباب سے زیادہ آدمی کے دل سے ہے اگر دل غنی اور بے نیاز ہے تو آدمی تونگر اور خوشحال ہے اور اگر دل حرص و طمع کا اسیر ہے تو دولت کے ڈھیروں کے باوجود وہ خوشحالی سے محروم اور محتاج و پریشان حال ہے سعدی علیہ الرحمہ کا مشہور قول ہے وہ تونگری بدل است نہ بہ مال۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2420