صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ -- زکاۃ کے احکام و مسائل
41. باب التَّحزِيرِ مِنَ الاِ غتِرَارِ بِزِينَةِ الدُّنيَا وَمَا يَبسُطُ مِنهَا
باب: دنیا کی کشادگی اور زینت پر مغرور مت ہو۔
حدیث نمبر: 2422
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَخْوَفُ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ مَا يُخْرِجُ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا "، قَالُوا: وَمَا زَهْرَةُ الدُّنْيَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: " بَرَكَاتُ الْأَرْضِ "، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَهَلْ يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ؟ قَالَ: " لَا يَأْتِي الْخَيْرُ إِلَّا بِالْخَيْرِ، لَا يَأْتِي الْخَيْرُ إِلَّا بِالْخَيْرِ، لَا يَأْتِي الْخَيْرُ إِلَّا بِالْخَيْرِ، إِنَّ كُلَّ مَا أَنْبَتَ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ أَوْ يُلِمُّ، إِلَّا آكِلَةَ الْخَضِرِ، فَإِنَّهَا تَأْكُلُ حَتَّى إِذَا امْتَدَّتْ خَاصِرَتَاهَا اسْتَقْبَلَتِ الشَّمْسَ، ثُمَّ اجْتَرَّتْ وَبَالَتْ وَثَلَطَتْ، ثُمَّ عَادَتْ فَأَكَلَتْ، إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَمَنْ أَخَذَهُ بِحَقِّهِ وَوَضَعَهُ فِي حَقِّهِ، فَنِعْمَ الْمَعُونَةُ هُوَ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ كَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ ".
زید بن اسلم نے عطا ء بن یسار سے اور انھوں نے حضرت خدری رضی اللہ عنہ سے روا یت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " مجھے تمھارے بارے میں سب سے زیادہ ڈر دنیا کی اس شادابی اور زینت سے ہے جو اللہ تعا لیٰ تمھا رے لیے ظا ہر کر ے گا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی دنیا کی شادا بی اور زینت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: " زمین کی بر کا ت۔انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا خیر شر کو لے آتی ہے؟ آپ نے فرمایا: " خیر سوائے خیر کے کچھ نہیں لا تی خیر سوائے خیر کے کچھ نہیں لاتی خیر سوائے خیر کے کچھ نہیں لا تی خیر سوائے خیر کے کچھ نہیں لا تی وہ سب کچھ جو بہا ر اگا تی ہے وہ (زیادہ کھا نے کی وجہ سے ہو نے والی بد ہضمی کا سبب بن کر) مار دیتا ہے یا موت کے قریب کر دیتا ہے سوائے اس چارہ کھا نے والے جا نور کے جو کھا تا ہے یہاں تک کہ جب اس کی دونوں کو کھیں پھول جا تی ہیں (وہ سیر ہو جا تا ہے) تو وہ (مزید کھا نا چھوڑ کر) سورج کی طرف منہ کر لیتا ہے پھر جگا لی کرتا ہے پیشاب کرتا ہے گو بر کرتا ہے پھر لو ٹتا ہے اور کھاتا ہے بلا شبہ یہ ما ل شادا ب اور شیریں ہے جس نے اسے اس کے حق کے مطا بق لیا اور حق (کے مصرف) ہی میں خرچ کیا تو وہ (مال) بہت ہی معاون و مددد گا ر ہو گا اور جس نے اسے حق کے بغیر لیا وہ اس انسان کی طرح ہو گا جو کھا تا ہے لیکن سیر نہیں ہو تا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تمھارے بارے میں سب سے زیادہ خطرہ اور اندیشہ دنیا کی اس زینت اور تازگی کا ہے جو اللہ تعالیٰ تمھیں دے گا۔ صحابہ نے عرض کیا: دنیا کی رونق اور ترو تازگی سے کیا مراد ہے؟ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمین کی برکات انھوں نے کہا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا خیر شر کے لانے کا سبب بن جاتا ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیر، خیر ہی کے لانے کا سبب بنتا ہے۔ خیر، خیر ہی لاتا ہے۔ خیر، خیر کا ہی پیش خیمہ ہے۔ جو سبزہ اور نباتات موسم بہار اگاتا ہے وہ قتل کر دیتا ہے یا قریب الموت کر دیتا ہے مگر وہ چرنے والا جانور جو چرتا چگتا ہے جب اس کی دونوں کوکھیں پھول جاتی ہیں (وہ سیر ہو جاتا ہے (وہ سیر ہو جاتا ہے) وہ سورج کا رخ کر کے بیٹھ جاتا ہے پھر جگالی کرتا ہے اور بیٹھ کر گوبر اور پیشاب کرتا ہے پھر اٹھ کر دوبارہ کھانا شروع کر دیتا ہے یہ مال سرسبز و شاداب اور شریں ہے تو جو اسے جائز طریقہ سے لے گا اور جائز موقع و محل پر خرچ کرے گا تو وہ بہت ہی معاون و مددگار ہے اور اسے ناجائز طریقہ سے لے گا وہ اس انسان کی طرح ہے جو کھاتا ہے سیر نہیں ہوتا۔