صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ -- زکاۃ کے احکام و مسائل
47. باب ذِكْرِ الْخَوَارِجِ وَصِفَاتِهِمْ:
باب: خوارج اور ان کی صفات کا ذکر۔
حدیث نمبر: 2452
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي نُعْمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، يَقُولُ: بَعَثَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْيَمَنِ بِذَهَبَةٍ فِي أَدِيمٍ مَقْرُوظٍ، لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِهَا، قَالَ: فَقَسَمَهَا بَيْنَ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ: بَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ حِصْنٍ، وَالْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ، وَزَيْدِ الْخَيْلِ، وَالرَّابِعُ إِمَّا عَلْقَمَةُ بْنُ عُلَاثَةَ وَإِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: كُنَّا نَحْنُ أَحَقَّ بِهَذَا مِنْ هَؤُلَاءِ، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَلَا تَأْمَنُونِي وَأَنَا أَمِينُ مَنْ فِي السَّمَاءِ، يَأْتِينِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً "، قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ نَاشِزُ الْجَبْهَةِ كَثُّ اللِّحْيَةِ مَحْلُوقُ الرَّأْسِ مُشَمَّرُ الْإِزَارِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اتَّقِ اللَّهَ، فَقَالَ: " وَيْلَكَ أَوَلَسْتُ أَحَقَّ أَهْلِ الْأَرْضِ أَنْ يَتَّقِيَ اللَّهَ "، قَالَ: ثُمَّ وَلَّى الرَّجُلُ، فَقَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟، فَقَالَ: " لَا لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ يُصَلِّي "، قَالَ خَالِدٌ: وَكَمْ مِنْ مُصَلٍّ يَقُولُ بِلِسَانِهِ مَا لَيْسَ فِي قَلْبِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَمْ أُومَرْ أَنْ أَنْقُبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ، وَلَا أَشُقَّ بُطُونَهُمْ "، قَالَ: ثُمَّ نَظَرَ إِلَيْهِ وَهُوَ مُقَفٍّ، فَقَالَ: " إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا، قَوْمٌ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ رَطْبًا، لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ، كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ "، قَالَ: أَظُنُّهُ قَالَ: " لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُودَ "،
عبدالواحد نے عمارہ بن قعقاع سے ر وایت کی، انھوں نے کہا: ہمیں عبدالرحمان بن نعیم نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ حضرت علی بن ابی طالب نے یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رنگے ہوئے (دباغت شدہ) چمڑے میں (خام) سونے کا ایک ٹکڑا بھیجاجسے مٹی سے الگ نہیں کیاگیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار افراد: عینیہ بن حصن، اقرع بن حابس، زید الخیل اور چوتھے فرد علقمہ بن علاثہ یا عامر بن طفیل کے درمیان تقسیم کردیا۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے ایک آدمی نے کہا: ہم اس (عطیے) کے ان لوگوں کی نسبت زیادہ حق دار تھے۔کہا: یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟حالانکہ میں اس کا امین ہوں جو آسمان میں ہے، میرے پاس صبح وشام آسمان کی خبر آتی ہے۔" (ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے) کہا: گھنی داڑھی، ابھرے ہوئے رخساروں، دھنسی ہوئی آنکھوں، نکلی ہوئی پیشانی، منڈھے ہوئے سر والا اور پنڈلی تک اٹھے تہبند والا ایک شخص کھڑا ہوا، اس نے کہا: اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ سے ڈریئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"تجھ پر افسوس، کیا میں تمام اہل زمین سے بڑھ کر اللہ سے ڈرنے کا حقدار نہیں ہوں!"پھر وہ آدمی پیٹھ پھیر کر چل دیا۔توخالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، ہوسکتا ہے کہ وہ نماز پڑھتا ہو۔"خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کی: کتنے ہی نمازی ہیں جو زبان سے (وہ بات) کہتے ہیں (کلمہ پڑھتے ہیں) جو ان کے دلوں میں نہیں۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں سوراخ کروں اور نہ یہ کہ ان کے پیٹ چاک کروں۔"پھر جب وہ پشت پھیر کر جارہاتھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا: "یہ حقیقت ہے کہ اس کی اصل سے ایسے لوگ نکلیں گے جو اللہ کی کتاب کو بڑی تراوٹ سے پڑھیں گے (لیکن) لیکن وہ ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گی، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر نشانہ بنائے جانے والے شکار سے نکلتا ہے۔" (ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ نے) کہا: میر اخیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر میں نے ان کو پالیا تو انھیں اس طرح قتل کروں گا جس طرح ثمود قتل ہوئے تھے۔"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں: کہ حضرت علی بن ابی طالب نے یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رنگے ہوئے چمڑے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ سونا بھیجا جسے مٹی سے الگ نہیں کیا گیا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار افراد: عینیہ بن حصن، اقرع بن حابس، زید الخیل اور چوتھا علقمہ بن علاثہ ہے یا عامر بن طفیل کے درمیان تقسیم کر دیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے ایک آدمی نے کہا: ان سے ہم ا سکے زیادہ حقدار تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ اور آسمان والا مجھے امین سمجھتا ہے، صبح شام میرے پاس آسمانی خبریں آتی ہیں ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے: اس پر ایک آدمی کھڑا ہوا، جس کی آنکھیں دھنسی ہوئیں تھیں، گال ابھرے ہوئے تھے، پیشانی اونچی تھی، داڑھی گھنی تھی، سر منڈا ہوا تھا اور تہبند پنڈلی تک اٹھا ہوا تھا۔ اس نے کہا: اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ سے ڈر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجھ پر افسوس، کیا میں تمام اہل زمین سے زیادہ اللہ سے ڈرنے کے قابل نہیں ہوں پھر وہ آدمی پیٹھ پھیر کر چل دیا۔ توخالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، ممکن ہے یہ نمازی ہو۔ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، کتنے ہی نمازی ہیں جو زبان سے ایسی بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے لوگوں کے دل چیرنے کا اور ان کے پیٹ چاک کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، کہ ان کے دل کی بات جانو۔ حضرت ابو سعید کہتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نظر دوڑائی جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر جا رہا تھا اور فرمایا: واقعہ یہ ہے کہ اس کی نسل سے ایسے لوگ نکلیں گے جو اللہ کی کتاب کو آسانی سے پڑھیں گے اور وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گی، وہ دین (اطاعت) سے اس طرح نکل گے جیسے تیر شکار سے نکلتا ہے۔ ابو سعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں: میر اخیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں نے ان کو پا لیا تو قوم ثمود کی طرح ان کو تہس نہس کر ڈالوں گا)۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7432  
´اللہ تعالیٰ کا (سورۃ المعارج میں) فرمان فرشتے اور روح القدس اس کی طرف چڑھتے ہیں`
«. . . عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:" بَعَثَ عَلِيٌّ وَهُوَ بِالْيَمَنِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذُهَيْبَةٍ فِي تُرْبَتِهَا، فَقَسَمَهَا بَيْنَ الْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي مُجَاشِعٍ وَبَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِيِّ وَبَيْنَ عَلْقَمَةَ بْنِ عُلَاثَةَ الْعَامِرِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي كِلَابٍ وَبَيْنَ زَيْدِ الْخَيْلِ الطَّائِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي نَبْهَانَ، فَتَغَضَّبَتْ قُرَيْشٌ، وَالْأَنْصَارُ، فَقَالُوا: يُعْطِيهِ صَنَادِيدَ أَهْلِ نَجْدٍ وَيَدَعُنَا، قَالَ: إِنَّمَا أَتَأَلَّفُهُمْ، فَأَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ، نَاتِئُ الْجَبِينِ، كَثُّ اللِّحْيَةِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، مَحْلُوقُ الرَّأْسِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، اتَّقِ اللَّهَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَمَنْ يُطِيعُ اللَّهَ إِذَا عَصَيْتُهُ، فَيَأْمَنُنِي عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ وَلَا تَأْمَنُونِي، فَسَأَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ؟ قَتْلَهُ أُرَاهُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ، فَمَنَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا وَلَّى، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يَقْتُلُونَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ . . .»
. . . ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ سونا بھیجا گیا تو آپ نے اسے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا۔ اور مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، ان سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہیں سفیان نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے، انہیں ابن ابی نعم نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے کچھ سونا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اقرع بن حابس حنظلی، عیینہ بن بدری فزاری، علقمہ بن علاثہ العامری اور زید الخیل الطائی میں تقسیم کر دیا۔ اس پر قریش اور انصار کو غصہ آ گیا اور انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نجد کے رئیسوں کو تو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک مصلحت کے لیے ان کا دل بہلاتا ہوں۔ پھر ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، پیشانی ابھری ہوئی تھی، داڑھی گھنی تھی، دونوں کلے پھولے ہوئے تھے اور سر گٹھا ہوا تھا۔ اس مردود نے کہا: اے محمد! اللہ سے ڈر۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں بھی اس (اللہ) کی نافرمانی کروں گا تو پھر کون اس کی اطاعت کرے گا؟ اس نے مجھے زمین پر امین بنایا ہے اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے۔ پھر حاضرین میں سے ایک صحابی خالد رضی اللہ عنہ یا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے قتل کی اجازت چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ پھر جب وہ جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن کے صرف لفظ پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکال کر پھینک دئیے جائیں گے جس طرح تیر شکاری جانور میں سے پار نکل جاتا ہے، وہ اہل اسلام کو (کافر کہہ کر) قتل کریں اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے اگر میں نے ان کا دور پایا تو انہیں قوم عاد کی طرح نیست و نابود کر دوں گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: 7432]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7432 کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {تَعْرُجُ الْمَلاَئِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ}

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب جو حدیث پیش فرمائی ہے اس کا بظاہر باب سے مناسبت دکھائی نہیں دیتا کیونکہ تحت الباب نہ تو فرشتوں کا ذکر ہے اور نہ ہی اعمال صالحہ کا اوپر چڑھنے کا ذکر ہے۔ لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق اسی روایت کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں باب سے مناسبت ظاہر ہوتی ہے۔

علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«حديث أبى سعيد الخدري رضي الله عنه، و مناسبة للترجمة من جهة أنه ورد فى بعض روايات هذا الحديث: ألا تأمنوني و أنا أمين من فى السماء فجرى البخاري على عادته المعروفة من الإشارة إلى الرواية التى لم يوردها لإرادة تشحيذ أذهان الطلبة.» [لب اللباب فی تراجم والابواب: 271/5]
حدیث سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کی باب سے مناسبت اس جہت سے ہے کہ بعض روایات میں اس حدیث کے یہ الفاظ وارد ہیں: میں اس اللہ کا امین ہوں جو آسمانوں میں ہے، پس امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق اس روایت کی طرف اشارہ فرمایا تاکہ تشحیذ کا سامان پیدا ہو جائے۔

علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بعض لوگوں نے مناسبت دینے کے لیے تکلف کیا ہے کہ کتاب المغازی میں یہ روایت ہے کہ «و أنا أمين من فى السماء» ۔ [عمدة القاري للعيني: 181/25]

لہٰذا ان تصریحات سے مناسبت کا پہلو اس طرح سے اجاگر ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں «و أنا أمين» کے الفاظ وارد ہوئے ہیں، پس انہی الفاظوں کے ساتھ باب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 320   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث169  
´خوارج کا بیان۔`
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حروریہ ۱؎ (خوارج) کے بارے میں کچھ ذکر کرتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسی قوم کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے جو بڑی عبادت گزار ہو گی، اس کی نماز کے مقابلہ میں تم میں سے ہر ایک شخص اپنی نماز کو کمتر اور حقیر سمجھے گا ۲؎، وہ دین سے ایسے ہی نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار کے جسم سے نکل جاتا ہے کہ تیر انداز اپنا تیر لے کر اس کا پھل دیکھتا ہے، تو اسے (خون وغیرہ) کچھ بھی نظر نہیں آتا، پھر اس کے پھل کو دیکھتا ہے تو بھی کچھ نظر نہیں آت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 169]
اردو حاشہ:
(1)
خوارج، نماز روزہ وغیرہ نیک اعمال میں بہت محنت کرتے تھے حتی کہ صحابہ بھی دیکھیں تو تعجب کریں۔
لیکن عقیدے کی خرابی کے ساتھ نیک عمل میں جتنی بھی محنت کی جائے، کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

(2)
اس حدیث میں تیر کے مختلف حصوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

نَصْل (پھل)
تیر کے اس حصے کو کہتے ہیں جو لوہے کا بنا ہوتا ہے اور تیز دھار ہونے کی وجہ سے زخمی کرتا ہے۔

رِصَاف وہ پٹھے جو تیر میں وہاں ہوتے ہیں جہاں لوہے کا پھل لکڑی سے ملتا ہے۔

قَدْح:
تیر کی وہ لمبی لکڑی جس کے سرے پر نصل لگایا جاتا ہے۔

قُذَذ:
اُن پروں کو کہتے ہیں جو تیر کے پچھلے حصے میں ہوتے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ تیر کے کسی حصے میں شکار شدہ جانور کا خون یا گوشت کا ٹکڑا تک نہیں لگا بلکہ تیر اسے لگ کر اتنی تیزی سے پار ہو گیا کہ بالکل صاف نکل گیا۔
اسی طرح یہ لوگ اسلام میں داخل ہوئے اور سیدھے باہر نکل گئے۔
اسلام کی دینی اور اخلاقی تعلیمات کا کچھ اثر قبول نہیں کیا۔

(3)
اگرچہ خوارج کی گمراہی واضح ہے اور صحیح اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں، اسی لیے محدثین کا ایک گروہ ان کے کافر ہونے کا قائل ہے، تاہم علماء کی اکثریت نے اس کے باوجود انہیں مرتد یا غیر مسلم قرار نہیں دیا بلکہ گمراہ اور باغی ہی فرمایا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 169   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4764  
´چوروں سے مقابلہ کرنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مٹی سے آلودہ سونے کا ایک ٹکڑا بھیجا ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار لوگوں: اقرع بن حابس حنظلی مجاشعی، عیینہ بن بدر فزاری، زید الخیل طائی جو بنی نبہان کے ایک فرد ہیں اور علقمہ بن علاثہ عامری جو بنی کلاب سے ہیں کے درمیان تقسیم کر دیا، اس پر قریش اور انصار کے لوگ ناراض ہو گئے اور کہنے لگے: آپ اہل نجد کے رئیسوں کو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ان کی تالیف قلب کرتا ہوں اتنے میں ایک شخص آیا (جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی، ر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4764]
فوائد ومسائل:
رسول ؐ انتہائی حلیم ومتحمل مزاج تھے اور بے ادب وگستاخ لوگوں سے بھی صرف نظر کر جاتے تھے۔
چنانچہ حکام، قضاہ اور اصحاب منصب کو بھی چاہیے کہ پہلے جاہلوں کی اصلاح کی کوشش کریں، اگر وہ اعلانیہ فساد پھیلانے لگیں تو ان کا قلع قمع کریں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4764   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2452  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
أَدِيمٍ مَقْرُوظٍ:
کیکر کی چھال یا اس کے تکوں سے رنگا ہوا چمڑا۔
(2)
لَمْ تُحَصَّلْ:
اس کو حاصل نہیں کیا گیا تھا یا الگ اور ممتاز نہیں کیا گیا تھا۔
(3)
نَاشِزُ الْجَبْهَةِ:
بلند اور اونچی پیشانی والا۔
(4)
أَنْقُبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ:
لوگوں کے دل چیز کر ان کے دل کی بات معلوم کروں۔
یعنی میں ظاہر کا پابند ہوں،
سریرہ اور باطن کا محاسبہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔
(5)
مُقَفٍّ:
قفا یعنی گدی پچھلی طرف کر کے جانے والا۔
(6)
رَطْبًا:
تازہ کو کہتے ہیں لیکن اس سے مقصود آسانی اور سہولت کے ساتھ پڑھنا ہے جیسا کہ اگلی روایت میں ہے۔
(7)
لينا رطبا:
ہمیشہ پڑھنے کی وجہ سے آسانی و سہولت پیدا ہو جاتی ہے۔
فوائد ومسائل:

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں واقعہ 8 ہجری جعرانہ کے مقام پر پیش آیا۔
جب کہ آپ نے مختلف لوگوں میں چاندی تقسیم کی اور ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں یہ واقعہ 9 ہجری کا ہے۔
جبکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غیرصاف شدہ سونا بھیجا اور آپﷺ نےتالیف قلبی کی خاطر چار نجدی سرداروں میں اسے تقسیم کر دیا۔
اور بقول محمد بن اسحاق امام سیرت ومغازی دونوں جگہ گستاخی کا مرتکب اور آپ کو نشانہ تنقید بنانے والا ذوالخویصرۃ مرقوص بن زہیر تمیمی ہے۔

اس کے قتل کی اجازت پہلے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےطلب کی تھی اور پھر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جیسا کہ اگلی روایت میں اس کی صراحت موجود ہے۔
اور اس کے قتل کی اجازت نہ دینے کی وجہ وہی ہے کہ ابھی اس کی نسل کا ظہور نہیں ہوا تھا۔
نیز یہ نام نہاد مسلمان تھا اور نماز پڑھتا تھا۔
اس کے قتل کے نتیجے میں آپ کے خلاف غلط پروپیگنڈا ہو سکتا تھا۔
جس سے ابھی دینی اور سیاسی طور پر بچنے کی ضرورت تھی لیکن اب اگر کوئی بدبخت آپﷺ کو گالی دے یا توہین وتنقیص کے کلمات کہے۔
تو وہ ائمہ اربعہ کے نزدیک واجب القتل ہے۔
اور اس کی توبہ کی قبولیت کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔

خوارج نے جب تک مسلمانوں سے جنگ نہیں کی۔
ان کو قتل نہیں کیا گیا۔
لیکن جب انہوں نے مسلمانوں کے خلاف تلواراٹھائی تو انہیں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ٹھکانے لگایا جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2452