صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ -- زکاۃ کے احکام و مسائل
54. باب الدُّعَاءِ لِمَنْ أَتَى بِصَدَقَتِهِ:
باب: صدقہ لانے والے کو دعا دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2493
ح وحَدَّثَنَاه ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ شُعْبَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: " صَلِّ عَلَيْهِمْ ".
عبد اللہ بن ادریس نے شعبہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی البتہ انھوں نے أل ابی اوفی کے بجا ئے ان سب پر رحمت بھیج "کہا۔
امام صاحب اپنے دوسرے اساتذہ سے یہی روایت شعبہ ہی کے سند سے بیان کرتے ہیں اس میں صرف یہ الفاظ ہیں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان پر رحمت نازل فرما۔ گویا اللھم کا لفظ نہیں ہے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2493  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آپﷺ کا زکاۃ لانے والوں کے لیے دعا کرنا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
﴿وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ﴾ کی تعمیل میں تھا۔
کیونکہ دعا ملنے سے انسان کو ایک طرح سے سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
آپﷺ تو کسی کو لفظ صلوۃ کے ذریعہ دعا دے سکتے تھے لیکن ہمارے لیے غیر انبیاء علیہ السلام کے لیے الگ اور مستقل طور پر لفظ صلوۃ اور سلام استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔
کیونکہ رافضی ائمہ اہل بیت کو نبی کا درجہ دیتے ہیں اور ان پر صلوۃ وسلام بھیجتے ہیں اس لیے ان الفاظ کے استعمال سے ان بدعقیدہ لوگوں کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
صاحبین اور جمہور علماء کا یہی نظریہ ہے۔
صرف امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اس کے جواز کے قائل ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2493