صحيح مسلم
كِتَاب الصِّيَامِ -- روزوں کے احکام و مسائل
2. باب وُجُوبِ صَوْمِ رَمَضَانَ لِرُؤْيَةِ الْهِلاَلِ وَالْفِطْرِ لِرُؤْيَةِ الْهِلاَلِ وَأَنَّهُ إِذَا غُمَّ فِي أَوَّلِهِ أَوْ آخِرِهِ أُكْمِلَتْ عِدَّةُ الشَّهْرِ ثَلاَثِينَ يَوْمًا:
باب: اس بیان میں کہ روزہ اور افطار چاند دیکھ کر کریں اور اگر بدلی ہو تو تیس تاریخ پوری کریں۔
حدیث نمبر: 2507
وحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنَا حَسَنٌ الْأَشْيَبُ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ يَحْيَى ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ ".
ابو سلمہ نے مجھے بتایا کہ انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا: "مہینہ انتیس کا بھی ہوتا ہے۔"
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مہینہ انتیس کا بھی ہوتا ہے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2319  
´مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم ان پڑھ لوگ ہیں نہ ہم لکھنا جانتے ہیں اور نہ حساب و کتاب، مہینہ ایسا، ایسا اور ایسا ہوتا ہے، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے بتایا)، راوی حدیث سلیمان نے تیسری بار میں اپنی انگلی بند کر لی، یعنی مہینہ انتیس اور تیس دن کا ہوتا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2319]
فوائد ومسائل:
(1) (أمة أمية) اُمی امت اس کلمہ کی توجیہات میں سے ایک توجیہ یہ ہے کہ یہ (اُم) ماں کی طرف منسوب ہے اور مراد ہے ایسے لوگ جو علم و معرفت کے مسائل میں مادری صفات پر قائم ہوں جسے ہم علم سے کورے سے تعبیر کر سکتے ہیں۔
اور عرب میں تعلیم و تعلم اسلام کی برکت ہی سے آیا ہے، اس سے پہلے ان میں یہ فنون گنتی کے لوگ جانتے تھے۔
اسی لیے اس کا ترجمہ ان پڑھ کر دیا جاتا ہے۔

(2) قمری مہینے کبھی انتیس دن کے ہوتے ہیں اور کبھی تیس دن کے۔
اٹھائیس یا اکتیس کے نہیں ہوتے۔

(3) ابوداود کی اس روایت میں اختصار ہے۔
دوسری روایات میں ہے کہ دوسری مرتبہ آپ نے ہاتھوں کی انگلیوں کے ساتھ تین مرتبہ اشارہ کیا۔
  یعنی مہینہ کبھی 29 دن کا اور کبھی 30 دن کا ہوتا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2319