صحيح مسلم
كِتَاب الصِّيَامِ -- روزوں کے احکام و مسائل
2. باب وُجُوبِ صَوْمِ رَمَضَانَ لِرُؤْيَةِ الْهِلاَلِ وَالْفِطْرِ لِرُؤْيَةِ الْهِلاَلِ وَأَنَّهُ إِذَا غُمَّ فِي أَوَّلِهِ أَوْ آخِرِهِ أُكْمِلَتْ عِدَّةُ الشَّهْرِ ثَلاَثِينَ يَوْمًا:
باب: اس بیان میں کہ روزہ اور افطار چاند دیکھ کر کریں اور اگر بدلی ہو تو تیس تاریخ پوری کریں۔
حدیث نمبر: 2517
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْهِلَالَ، فَقَالَ: " إِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَصُومُوا، وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا، فَإِنْ أُغْمِيَ عَلَيْكُمْ فَعُدُّوا ثَلَاثِينَ ".
اعرج، ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے فرمایا کہ تم چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کرروزہ افطار (عید) کرو۔تو اگر تم پر مہینہ پوشیدہ رہے تو تم تیس روزوں کی تعداد پوری کرو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کا تذکرہ کیا اورفرمایا: جب تم اسے دیکھ لو تو روزہ رکھو اورجب تم اسے پھر دیکھ لو تو روزہ افطارکرو پس اگر تم پر گرد و غبار چھا جائے تو تیس دن گنو۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1650  
´رمضان سے ایک روز پہلے روزہ رکھنے کی ممانعت اگر کوئی شخص پہلے سے روزہ رکھتا چلا آیا ہو تو جائز ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان سے ایک دن یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھو، الا یہ کہ کوئی آدمی پہلے سے روزے رکھ رہا ہو تو وہ اسے رکھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1650]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رمضان شروع ہونے سے ایک دن پہلے روزہ رکھنے کی ایک صورت شک کا روزہ ہے۔
جس کی تفصیل گزشتہ باب میں بیان ہوئی یعنی جس دن مطلع ابر آلود ہونے یا کسی اور وجہ سے چاند نظر آنے کی شرعی گواہی نہ مل سکی ہو۔
اور لوگوں کو اس کی بابت شک ہو کہ تیس شعبان ہے۔
یا یکم رمضان تو اس دن اس نیت سے روزہ رکھنا کہ اگر بعد میں ثابت ہوگیا کہ رمضان شروع ہوچکا تھا تو یہ رمضان کا روزہ شمار ہوگا ورنہ نفلی روزہ ہوجائے گا۔
یہ صورت جائز نہیں۔

(2)
رمضان سے پہلے روزہ رکھنے کی دوسری صورت یہ ہے کہ رمضان شروع نہ ہونے کا یقینی علم ہونے کے باوجود روزہ رکھا جائے اس طرح نفل اور فرض کو باہم ملا دیا جائے تو یہ بھی جائز نہیں بلکہ یہ عمل ظاہری طور پر فرضی عبادت میں اضافے سے مشابہ ہے۔

(3)
رمضان سے پہلے روزہ رکھنے کی تیسری صورت یہ ہے مثلاً ایک شخص کا معمول سنت کے مطابق سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھنا ہے۔
اتفاقاً 29 یا 30 شعبان کو سوموار یا جمعرات کا دن تھا اور اس سے اگلے دن یکم رمضان ہوگیا۔
تو یہ روزہ رمضان سے پہلے اس سے متصل ہے۔
یا کسی کے ذمے قضاء وغیرہ کے روزے تھے۔
وہ 29 یا 30 شعبان کو ختم ہوئے۔
ان صورتوں میں یا ایسی ہی کسی اور صورت میں اس کا ارادہ رمضان کے ساتھ دوسرے روزے ملانے کا نہیں تھا بلکہ اتفاقاً یہ روزے رمضان کے روزوں سے آ ملے۔
تو یہ صورت جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1650   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 684  
´رمضان کے استقبال کی نیت سے ایک دو روز پہلے روزہ رکھنے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ماہ (رمضان) سے ایک یا دو دن پہلے (رمضان کے استقبال کی نیت سے) روزے نہ رکھو ۱؎، سوائے اس کے کہ اس دن ایسا روزہ آ پڑے جسے تم پہلے سے رکھتے آ رہے ہو ۲؎ اور (رمضان کا) چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور (شوال کا) چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھنا بند کرو۔ اگر آسمان ابر آلود ہو جائے تو مہینے کے تیس دن شمار کر لو، پھر روزہ رکھنا بند کرو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 684]
اردو حاشہ:
1؎:
اس ممانعت کی حکمت یہ ہے کہ فرض روزے نفلی روزوں کے ساتھ خلط ملط نہ ہو جائیں اور کچھ لوگ انھیں فرض نہ سمجھ بیٹھیں،
لہذا تحفظ حدود کے لیے نبی اکرم ﷺ نے جانبین سے روزہ منع کر دیا کیونکہ امم سابقہ میں اس قسم کے تغیر و تبدل ہوا کرتے تھے جس سے زیادتی فی الدین کی راہ کھلتی تھی،
اس لیے اس سے منع کر دیا۔

2؎:
مثلاً پہلے سے جمعرات یا پیر یا ایام بیض کے روزے رکھنے کا معمول ہو اور یہ دن اتفاق سے رمضان سے دو یا ایک دن پہلے آ جائے تو اس کا روزہ رکھا جائے کہ یہ استقبال رمضان میں سے نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 684   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2335  
´شعبان کے روزے رکھتے ہوئے ماہ رمضان میں داخل ہونے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان سے ایک دن یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھو، ہاں اگر کوئی آدمی پہلے سے روزہ رکھتا آ رہا ہے تو وہ ان دنوں کا روزہ رکھے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2335]
فوائد ومسائل:
(1) شعبان کو رمضان کے ساتھ ملانے کا مفہوم یہ ہے کہ شعبان میں روزے رکھے حتی کہ رمضان شروع ہو جائے۔

(2) شریعت کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ عبادت اور عادت میں فرق کیا جانا چاہیے، اس لیے کہ اگر کسی نے یہ عادت بنائی ہو کہ وہ سوموار اور جمعرات کو مسنون روزے رکھتا ہو یا اتفاقا کوئی نذر مان لی یا کوئی قضا کا روزہ باقی ہو تو اس کے لیے رخصت ہے کہ رمضان شروع ہونے سے ایک دو دن پہلے روزہ رکھ لے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2335   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2517  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
اغمي،
غمي،
غم:
سب کا مقصد یہ ہے کہ رؤیت کے درمیان۔
ابر،
یا گردوغبار حائل ہو جائے۔
فوائد ومسائل:

اسلام میں رمضان کے شروع ہونے اور ختم ہونے کا دارومدار رؤیت ہلال (چاند دیکھنا)
پر رکھا گیا ہے کسی علم وفن اورآلات یا قرینہ وقیاس پر نہیں رکھا تاکہ ہر علاقہ اور ہر دور کے لوگوں کے لیے سہولت اور آسانی رہے۔
یہی آپﷺ کے اس فرمان کا مقصد ہے کہ ہم امی لوگ ہیں۔
حساب کتاب نہیں جانتے۔

چاند ہر فرد کے لیے دیکھنا ضروری نہیں ہے کہ جس کو چاند نظر نہ آئے وہ روزہ نہ رکھے یا اس وقت روزہ رکھنا نہ چھوڑے۔
جب تک مہینہ تیس کا نہ ہو جائے۔
اور نہ یہ مقصد ہے کہ چاند دیکھتے ہی روزہ شروع ہو جائے گا اور چاند دیکھتے ہی روزہ چھوڑ دیا جائے گا۔
روزہ کا آغاز سحری سے ہو گا اور افطار کا آغاز سورج کے غروب سے ہو گا۔

جمہور کے نزدیک اگرچاند نظر نہ آئے بادل ہوں یا مطلع صاف ہو۔
دونوں صورتوں میں مہینہ شعبان تیس کا شمار ہو گا۔
حنابلہ کے نزدیک اگر مطلع صاف ہو تو حکم یہی ہے لیکن اگر مطلع ابرآلود ہو یا گردوغبار ہو،
تو پھر حنابلہ کے تین قول ہیں۔

رمضان کی حیثیت سے روزہ رکھنا فرض ہے۔

فرض یا نفل کوئی روزہ جائز نہیں ہے ہاں قضاء،
کفارۃ،
نذر یا اگر یہ عادت کے مطابق ہو۔
تو پھر جائز ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی قول ہے،
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک رمضان کی حیثیت سے نہیں رکھا جا سکتا ایسے جائز ہے۔

امام وقت کی رائے کا لحاظ ہے اگر امام روزہ رکھ لے۔
تو لوگ بھی رکھیں اگر امام روزہ نہ رکھے تو لوگ بھی روزہ نہ رکھیں۔

روزہ رکھنے کے لیے جمہور کا قول یہ ہے کہ ایک دیندار اورقابل اعتماد آدمی کا دیکھنا کافی ہے۔
لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دو آدمیوں کی روئیت کا اعتبار ہو گا۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول جمہور والا ہے لیکن مشہور اور معروف قول یہ ہے کہ اگر مطلع ابرآلود ہے تو پھر تو ایک آدمی کی گواہی کافی ہے لیکن اگر مطلع صاف وشفاف تو پھر اتنے لوگ گواہی دیں کہ ان کی خبر سے یقین حاصل ہو جائے۔
حالانکہ حدیث میں یہ فرق وامتیاز وارد نہیں ہے۔

اگر ایک انسان مثلاً سعودی عرب سے ایک یا دو روز پہلے روزے رکھ کر آخری دنوں میں پاکستان آ گیا اب اس کے روزے تیس ہو گئے ہیں لیکن پاکستان میں چاند نظر نہیں آیا تو بعض حضرات کے نزدیک اس کو پاکستانیوں کے ساتھ روزہ رکھنا ہو گا۔
کیونکہ یہاں پر چاند نظر نہیں آیا۔
اور آپﷺ کا فرمان ہے:
(الصوم يوم تصومون والفطر يوم تفطرون)
جس دن لوگ روزہ رکھیں اس دن روزہ ہے اور جس دن لوگ عید کریں اس دن عید ہے اور ظاہر ہے اس حدیث کا تعلق تو اس فرد سے ہے جو ابتداء اور انتہاء دونوں میں لوگوں کے ساتھ تھا۔
اور مہینہ تیس دن سے زائد نہیں ہوتا اور روزے تو ایک ماہ کے رکھے جاتے ہیں۔
ہاں یہ بات ہے اسے اس دن کھلم کھلا نہیں کھانا چاہیے یا نفلی روزہ رکھ لے۔
اگر وہ یہاں پاکستان سے روزے رکھ کر سعودی عرب گیا ہے اور ابھی اس کے اٹھائیس روزے ہوئے تھے کہ وہاں عید ہو گئی تو وہاں عید کر لے گا اوربعد میں وہاں کے حساب سے روزے پورے کرے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2517