صحيح مسلم
كِتَاب الصِّيَامِ -- روزوں کے احکام و مسائل
10. باب بَيَانِ وَقْتِ انْقِضَاءِ الصَّوْمِ وَخُرُوجِ النَّهَارِ:
باب: روزہ کا وقت تمام ہونے، اور دن کے ختم ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2559
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ أَبِي إسحاق الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، فَلَمَّا غَابَتِ الشَّمْسُ، قَالَ: " يَا فُلَانُ انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا "، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ عَلَيْكَ نَهَارًا، قَالَ: " انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا "، قَالَ: فَنَزَلَ فَجَدَحَ فَأَتَاهُ بِهِ، فَشَرِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ بِيَدِهِ: " إِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ مِنْ هَا هُنَا، وَجَاءَ اللَّيْلُ مِنْ هَا هُنَا فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ ".
ہشیم، ابی اسحاق شیبانی، حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے مہینے میں ایک سفر میں تھے جب سورج غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا اے فلاں!اتر اور ہمارے لئے ستو ملااس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ابھی تو دن ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اتر اور ہمارے لئے ستو ملا تو وہ اترا اور اس نے ستو ملا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ستو پیا پھر آپ نے اپنے ہاتھ مبارک سے فرمایا جب سورج اس طرف سے غروب ہوجائے اور اس طرف سے رات آجائے تو روزہ رکھنے والے کو افطار کرلیناچاہیے۔ (اس کا روزہ ختم ہوچکا)
حضرت عبداللہ بن اوفیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ماہ رمضان کے ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جب سورج غروب ہو گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے فلاں! سواری سے اتر کر ہمارے لیے ستو بھگو یا گھول۔ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ابھی تو دن موجود ہے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ا تر کر ہمارے لیے ستو گھول وہ اترا اور ستو تیار کر کے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پی لیا۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا: جب سورج ادھر ڈوب جائے اور اس سمت (مشرق) سے رات آجائے تو روزہ دار وقت افطار میں داخل ہو گیا۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2352  
´روزہ افطار کرنے کے وقت کا بیان۔`
سلیمان شیبانی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے آپ روزے سے تھے، جب سورج غروب ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال! (سواری سے) اترو، اور ہمارے لیے ستو گھولو، بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اگر اور شام ہو جانے دیں تو بہتر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اترو، اور ہمارے لیے ستو گھولو، بلال رضی اللہ عنہ نے پھر کہا: اللہ کے رسول! ابھی تو دن ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اترو، اور ہمارے لیے ستو گھولو، چنانچہ وہ اترے اور ستو گ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2352]
فوائد ومسائل:
(1) سورج غروب ہوتے ہی افطار کا وقت ہو جاتا ہے۔
بعد از غروب انتظار یا احتیاط کے کوئی معنی نہیں۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا تعمیل ارشاد نبوی میں تردد فضا میں سفیدی وغیرہ کی وجہ سے تھا اور وہ سمجھ رہے تھے کہ سورج شاید کسی پہاڑ وغیرہ کی اوٹ میں ہے۔
حالانکہ فی الواقع سورج غروب ہو چکا تھا جیسا کہ راوی حدیث نے بیان کیا۔

(2) اس حدیث سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ بعض اوقات ظاہر امور کی وضاحت کروا لینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا، تاکہ امکانی شبہے کا ازالہ ہو جائے۔

(3) نیز صاحب علم کو یاد دلانا کوئی معیوب بات نہیں نہ یہ سوء ادبی ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2352