صحيح مسلم
كِتَاب الصِّيَامِ -- روزوں کے احکام و مسائل
19. باب صَوْمِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ:
باب: عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2637
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَتْ قُرَيْشٌ تَصُومُ عَاشُورَاءَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ، فَلَمَّا هَاجَرَ إِلَى الْمَدِينَةِ صَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ شَهْرُ رَمَضَانَ، قَالَ: " مَنْ شَاءَ صَامَهُ وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ "،
۔ زہیر بن حرب، جریر، ہشام بن عروۃ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ قریش جاہلیت کے زمانہ میں عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جب مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تواپنے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کو بھی اس کا روزہ رکھنے کاحکم فرمایا تو جب رمضان کے روزے فرض کر دیئے گئے تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو چاہے یوم عاشورہ کا روزہ رکھے اور جو چاہے چھوڑدے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ قریش زمانہ جاہلیت میں عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ آ گئے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے خود روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی اس روزہ کے رکھنے کا حکم دیا۔ جب رمضان کے مہینہ کے روزے فرض ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو چاہے اس کا روزہ رکھے اور جو چاہے اسے چھوڑ دے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 753  
´یوم عاشوراء کا روزہ نہ رکھنے کی رخصت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ عاشوراء ایک ایسا دن تھا کہ جس میں قریش زمانہ جاہلیت میں روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن روزہ رکھتے تھے، جب آپ مدینہ آئے تو اس دن آپ نے روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا، لیکن جب رمضان کے روزے فرض کئے گئے تو صرف رمضان ہی کے روزے فرض رہے اور آپ نے عاشوراء کا روزہ ترک کر دیا، تو جو چاہے اس دن روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 753]
اردو حاشہ: 1 ؎:
مؤلف نے حدیث پر حکم تیسرے فقرے میں لگایا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 753   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2637  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
زمانہ جاہلیت میں قریش عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے اور کعبہ کو غلاف بھی پہناتے تھے روزہ رکھنے کی تین وجوہ بیان کی جاتی ہیں۔

ملت ابراہیمی میں دس کا روزہ تھا یہودیوں اور عیسائیوں سے سیکھا تھا۔

قریش نے جاہلیت کے دور میں کسی انتہائی قبیح گناہ کا ارتکاب کیا جس کو انھوں نے انتہائی ناگوار خیال کیا تو کسی نے انہیں بطور کفارہ روزہ رکھنے کا مشورہ دیا۔

وہ جاہلیت کے دور میں خشک سالی سے دوچار ہوئے اور اس کے ختم ہونے پر بطور شکرانہ روزہ رکھا چونکہ روزہ ایک پسندیدہ عمل تھا اس لیے آپﷺ بھی یہ روزہ رکھتے تھے ہجرت مدینہ کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو روزہ رکھتے دیکھا تو ان سے اس کا سبب پوچھا:
انھوں نے بتایا کہ اس دن موسیٰ علیہ السلام کی سرکردگی میں بنو اسرائیل فرعونیوں کے پنجہ استبداد سے آزاد ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسی علیہ السلام کی اقتدا میں روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
احناف کے نزدیک وجوب کے لیے تھا اور باقی آئمہ کے نزدیک استحباب تاکیدی کے لیے اور اب بالاتفاق اس دن روزہ رکھنا مستحب ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2637