صحيح مسلم
كِتَاب الصِّيَامِ -- روزوں کے احکام و مسائل
20. باب أَيُّ يَوْمٍ يُصَامُ فِي عَاشُورَاءَ:
باب: عاشورہ کا روزہ کس دن رکھا جائے۔
حدیث نمبر: 2666
وحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيل بْنُ أُمَيَّةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا غَطَفَانَ بْنَ طَرِيفٍ الْمُرِّيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: حِينَ صَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ "، قَالَ: فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حسن بن علی حلوانی، ابن ابی مریم، یحییٰ بن ایوب، اسماعیل بن امیہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور اس کے روزے کا حکم فرمایا تو انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس دن تو یہودی اور نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب آئندہ سال آئے گا تو ہم نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھیں گے راوی نے کہا کہ ابھی آئندہ سال نہیں آیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشورہ کا روزہ رکھنا اپنا معمول بنا لیا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ وہ دن ہے جس کی یہود و نصاری تعظیم کرتے ہیں (گویا ان کا قومی و مذہبی شعارہے اور اس دن روزہ رکھنے سے ان کے ساتھ اشتراک اور تشابہ پیدا ہوتا ہے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان شاء اللہ جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو روزہ رکھیں گے۔عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اگلا سال آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2445  
´(محرم کی) نویں تاریخ کے (بھی) عاشوراء ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن کا روزہ رکھا اور ہمیں بھی اس کے روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ایسا دن ہے کہ یہود و نصاری اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگلے سال ہم نویں محرم کا بھی روزہ رکھیں گے، لیکن آئندہ سال نہیں آیا کہ آپ وفات فرما گئے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2445]
فوائد ومسائل:
(1) سلف و خلف کے جمہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ عاشورا سے مراد محرم کی دسویں تاریخ ہے، مگر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد نویں محرم ہے۔
اور اس کی توجیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اہل عرب کا ایک انداز یہ تھا کہ اونٹوں کو چراگاہ میں چرانے کے بعد پانی پلانے کے لیے لاتے تو جب انہوں نے ایک دن پانی پلانے کے بعد دو دن چرایا ہوتا اور اگلے دن آتے تو (وردنا اربعا) ہم چوتھے دن آئے یا چوتھے دن پانی پلایا، حالانکہ درحقیقت وہ تیسرا دن ہوتا۔
اسی طرح تین دن چرانے کے بعد اگلے دن لوٹتے تو کہتے (وردنا خمسا) ہم پانشویں دن آئے یا پانچوین دن پانی پلایا حالانکہ در حقیقت وہ چوتھا دن ہوتا۔
اسی انداز پر حضرت ابن عباس عاشورا کو نویں تاریخ بتاتے ہیں۔
(خطابی) مگر یہ توجیہ مرجوح ہے راجح مفہوم آگے آرہا ہے۔

(2) اس فرمان مبارک کا یہ مفہوم ہے کہ ہم نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھیں گے۔
دیگر روایات کی روشنی میں یہی معنی درست ہے۔
مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا وارد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہودیوں کی مخالفت کرو، ان سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد روزہ رکھو۔
(مسند احمد:1/241) جناب عطاء حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نویں اور دسویں کا روزہ رکھو اوریہود کی مخالفت کرو۔
(البيهقي:4/287) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ (پیش آمدہ روایت:2446 میں) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ جب تم محرم کا چاند دیکھو تو شمار کرو جب نویں تاریخ آئے تو روزہ رکھو۔
اس سے مراد یہ نہیں کہ عاشورا نویں تاریخ کو کہتے ہیں، بلکہ ان کی مراد یہ ہے کہ دسویں سے پہلے نویں تاریخ کا روزہ بھی رکھو۔
(افادات امام ابن القیم رحمة اللہ علیہ)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2445