صحيح مسلم
كِتَاب الصِّيَامِ -- روزوں کے احکام و مسائل
24. باب كَرَاهِيَةِ صِيَامِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ مُنْفَرِدًا:
باب: خاص جمعہ کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے (ہاں اگر جمعہ کا دن عادت کے مطابق روزوں میں آ جائے تو پھر مکروہ نہیں ہے)۔
حدیث نمبر: 2684
وحَدَّثَنِي أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ يَعْنِي الْجُعْفِيَّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَخْتَصُّوا لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ بِقِيَامٍ مِنْ بَيْنِ اللَّيَالِي، وَلَا تَخُصُّوا يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِصِيَامٍ مِنْ بَيْنِ الْأَيَّامِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ فِي صَوْمٍ يَصُومُهُ أَحَدُكُمْ ".
ابو کریب، حسین یعنی جعفی، زائدہ، ہشام، ابن سیرین، حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ راتوں میں سے جمعہ کی رات کو قیام کےساتھ مخصوص نہ کرو اور نہ ہی دنوں میں سے جمعہ کے دن کو روزے کے ساتھ مخصوص کروسوائے اس کے کہ تم میں سے جو کوئی روزے رکھ رہا ہو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ راتوں میں سے جمعہ کی رات کو قیام اور عبادت کے لیے مخصوص نہ کرو اور تم لوگ دنوں میں سے جمعہ کے دن کو روزہ کے لیے مخصوص نہ کرو۔ الا یہ کہ وہ تمھارے روزے کے معمول کے دنوں میں آ جائے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2684  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جمعہ کے دن کی فضیلت کی بنا پر اس بات کا امکان تھا کہ لوگ اس دن کو نفلی روزہ رکھنے اور رات کو قیام وتلاوت کے لیے مخوص کر لیں اور آہستہ آہستہ اس کے ساتھ فرض وواجب کا معاملہ کرنے لگیں حالانکہ شریعت نے اس کو فرض وواجب نہیں ٹھہرایا تو اس طرح بدعت کا دروازہ کھل جائے گا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دن یا رات میں اپنی طرف سے کسی عبادت کی راہ بند کرنے کے لیے یہ حکم صادر فرمایا جس سے ثابت ہوا شریعت نے جس کو لازم نہیں ٹھہرایا اس کو لازم ٹھہرانا یا اس کے ساتھ لازم جیسا سلوک کرنا درست نہیں ہے۔
اور یہ کسی عبادت کے لیے اپنے طور پر کسی دن کی تخصیص نہیں کرسکتے،
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس طرح امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جمعہ کے دن بلا قید روزہ رکھنا جائز ہے اور باقی ائمہ کے نزدیک حدیث کے مطابق جمعہ کی تخصیص جائز نہیں ہے الا یہ ہ وہ اس کے معمول کے دنوں میں آ جائے،
مثلاً ایک انسان ہمیشہ یکم،
گیارہ اور اکیس تاریخ کو روزہ رکھتا ہے تو ان میں سے کوئی تاریخ جمعہ کو پڑ جائے تو پھر جمعہ کا روزہ رکھنا جائز ہو گا اور احناف کا جمعہ کے روزہ کے لیے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا روزہ کم ہی چھوڑتے تھے،
سے استدلال درست نہیں،
کیونکہ آپﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت کے مطابق ہمیشہ جمعرات کو بھی روزہ رکھتے تھے دوسری روایت ہے کہ آپﷺ ایک مہینہ میں ہفتہ،
اتوار اور پیر کا روزہ رکھتے اور اگلے مہینہ منگل،
بدھ اور جمعرات کا،
اس لیے آپﷺ اکیلے جمعہ کا روزہ نہیں رکھتے تھے کہ باقی دنوں کو نظر انداز فرما دیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2684