صحيح مسلم
كِتَاب الصِّيَامِ -- روزوں کے احکام و مسائل
27. باب قَضَاءِ الصِّيَامِ عَنِ الْمَيِّتِ:
باب: میت کی طرف سے روزوں کی قضا کا بیان۔
حدیث نمبر: 2694
وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ عُمَرَ الْوَكِيعِيُّ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ أَفَأَقْضِيهِ عَنْهَا؟، فَقَالَ: " لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكَ دَيْنٌ أَكُنْتَ قَاضِيَهُ عَنْهَا؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَدَيْنُ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى "، قَالَ سُلَيْمَانُ : فَقَالَ الْحَكَمُ ، وَسَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ جَمِيعًا: وَنَحْنُ جُلُوسٌ حِينَ حَدَّثَ مُسْلِمٌ بِهَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَا: سَمِعْنَا مُجَاهِدًا يَذْكُرُ هَذَا، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ .
۔ احمد بن عمر وکیعی، حسین بن علی، زائدہ، سلیمان، مسلم، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے اور اس پر ایک مہینے کے روزوں کی قضا لازم ہے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تیری ما ں پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تو وہ قرض اس کی طرف سے ادا کرتی؟عرض کیا کہ ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کا قرض زیادہ اس کا حقدار ہے کہ اسے اداکیا جائے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اوراس نےکہا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری ماں فوت ہو گئی ہے اور اس کے ذمہ ایک ماہ کے روزے ہیں تومیں ان کو اس کی طرف سے رکھ سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تیری ماں کے ذمہ قرض ہوتا تو کیا تو اس کی طرف سےاسے ادا کرتا؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اللہ کا قرض زیادہ حق دار ہے کہ اس کو چکایا جائے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 337  
´حج بدل کا بیان`
«. . . يا رسول الله صلى الله عليه وسلم إن فريضة الله على العباد فى الحج ادركت ابى شيخا كبيرا لا يستيطع ان يثبت على الراحلة افاحج عنه. قال: نعم . . .»
. . . یا رسول اﷲ! اﷲ تعالی نے بندوں پر اس وقت حج فرض کیا جب میرے والد صاحب بہت بوڑھے ہو گئے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں! . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 337]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1513، ومسلم 1334، من حديث ما لك به]

تفقہ:
➊ اس پر جمہور علماء کا اجماع ہے کہ مرد عورت کی طرف سے اور عورت مرد کی طرف سے حج کر سکتے ہیں، صرف حسن بن صالح اسے مکروہ سمجھتے ہیں۔ [الاجماع لابن المنذر: 210، حاجي كے شب وروز ص 90]
➋ اس حدیث سے بعض علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ بحالت احرام عورت کے لئے غیر مردوں سے اپنا چہرہ چھپانا فرض و واجب نہیں ہے، تاہم افضل یہی ہے کہ غیر مردوں سے عورت اپنا چہرہ بھی چھپائے۔ فاطمہ بنت المنذ رحمہا الله فرماتی ہیں کہ ہم حالت احرام میں غیر مردوں سے اپنے چہرے چھپا لیتی تھیں اور ہمارے ساتھ ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی اسماء رضی اللہ عنہا ہوتی تھیں۔ [الموطأ، رواية يحييٰ 328/1 ح 734، وسنده صحيح]
➌ اگر سواری میں بوجھ اٹھانے کی طاقت ہو تو اس پر دو آدمی (یا زیاده) سوار ہو سکتے ہیں۔
➍ اس پر اجماع ہے کہ جو بالغ شخص حج والے دن، حج کی نیت سے عرفات پہنچ جائے اور حج کر لے تو اس کی طرف سے فریضہ حج ادا ہو جاتا ہے، چاہے یہ شخص اس وقت غریب فقیر تھا یا کسی بھی وجہ سے مکہ پہنچ گیا تھا۔
➎ میت کی طرف سے صرف وہی حج کر سکتا ہے جس نے پہلے بذات خود فریضہ حج ادا کر رکھا ہو جیسا کہ شبرمہ والی حدیث سے ثابت ہے۔ دیکھئے: [المعجم الكبير للطبراني 226/1 وسنده حسن]
➏ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے رہنا چاہئے کیونکہ انسان جتنا بھی نیک ہو، اس سے خطا اور لغزش کا صدور ممکن ہے۔
➐ اصحاب اقتدار کے لئے ضروری ہے کہ نیکی کا حکم دیں اور برائیوں سے منع کریں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 58   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2132  
´جو شخص مر جائے اور اس کے ذمہ نذر ہو تو اس کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھا کہ میری ماں کے ذمہ ایک نذر تھی وہ مر گئیں، اور اس کو ادا نہ کر سکیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان کی جانب سے اسے پوری کر دو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2132]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  نذر پوری کرنا واجب ہے۔

(2)
  اگر کوئی فوت ہو جائے اور نذر پوری نہ کی ہو تو مالی نذر اس کے مال سے پوری کر لی جائے جس طرح قرض ادا کیا جاتا ہے پھر ترکہ تقسیم کیا جائے۔

(3)
  بدنی نذر اس کے قریبی وارث کو پوری کرنی چاہیے۔

(4)
  اولاد کا حق زیادہ ہے کہ وہ والدین کی نذر پوری کریں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2132   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 584  
´حج کی فضیلت و فرضیت کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی روایت ہے کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے کہ قبیلہ خشعم کی ایک عورت آئی تو فضل رضی اللہ عنہ اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ ان کی طرف دیکھنے لگی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، فضل رضی اللہ عنہ کا منہ دوسری جانب پھیرتے تھے۔ پس اس عورت نے کہا، اے اللہ کے رسول! بیشک حج، اللہ کا فرض ہے اس کے بندوں پر۔ میرا باپ بڑی عمر والا بوڑھا ہے۔ وہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتا کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! اور یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ [بلوغ المرام/حدیث: 584]
584 لغوی تشریح:
«رَدِيف» ایک سواری پر دو بیٹھنے والوں سے پیچھے والے کو «رديف» کہتے ہیں۔
«خَثْعَمَ» خا پر زبر ثا ساکن اور عین پر زبر ہے۔ یمن کے مشہور قبیلے کا نام ہے۔ اسے منصرف اور غیر منصرف دونوں طرح پڑھنا ہے۔
«الشِّقٌ» یعنی جانب۔ آپ نے حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کا چہرہ اس لیے پھیر دیا کہ کہیں شیطان انہیں فتنے میں مبتلا نہ کر دے۔
«حَجَّةِ الْوَدَاعِ» یہ وہ حج ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہجری میں کیا اور اس کے تین ماہ بعد آپ وفات پاگئے۔ الوداع کے واو پر زبر ہے۔ اور یہ «وَدَّعَ» «توديعا» کا مصدر ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ واو کے نیچے کسرہ ہے۔ یوں یہ «وَادَعَ» «موادعة» کا مصدر ہے۔ آخری حج کا نام حجتہ الوداع اس لیے رکھا گیا ہے کہ آپ نے اس سال لوگوں کو یا حرم کعبہ کو رخصت اور الوداع کیا۔ یہ حدیث دلیل ہے کہ زندہ آدمی اگر معذور ہو اور اس کی صحت کی امید نہ ہو تو اس کی جانب سے حج بدل جائز ہے۔

فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس پر حج فرض ہو مگر وہ کسی مستقل بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے حج کرنے کی طاقت نہ پاتا ہو تو اس کی طرف سے حج بدل جائز ہے۔ لیکن عارضی بیماری (جس کے دور ہو جانے کا امکان ہو) میں نیابت درست نہیں۔ یہ شرط فرض حج کے لیے ہے، نفلی حج کے لیے اس میں شرط نیابت جائز ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام احمد رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے۔ اور حج بدل کے لیے بہتر یہی ہے کہ اس کا قریبی ہی نائب بنے۔

وضاحت:
حضرت فضل بن عباس یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے۔ ان کی والدہ کا نام ام فضل لبابۃ الکبریٰ بنت الحارث الھلالیۃ تھا۔ نہایت حسین و جمیل تھے۔ معرکہ حنین میں آپ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دینے میں شریک تھے اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سب سے بڑے یہی تھے۔ جہاد کے لیے شام تشریف لے گئے، کہا جاتا ہے ہے کہ طاعون عمواس کے سال اردن کے قریب 18 ہجری میں انتقال ہوا۔ بعض نے کہا ہے کہ یرموک کے دن شہید ہوئے اور بعض نے کہا کہ دمشق میں وفات پائی جبکہ ان کے جسم پر نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی چادر تھی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 584   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1546  
´میت کی طرف سے نذر پوری کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی الله عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نذر کے بارے جو ان کی ماں پر واجب تھی اور اسے پوری کرنے سے پہلے وہ مر گئیں، فتویٰ پوچھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کی طرف سے نذر تم پوری کرو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1546]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
میت کے واجب حقوق کو پورا کرنا اس کے وارثوں کے ذمہ واجب ہے،
اس کے لیے میت کی طرف سے اسے پوری کرنے کی وصیت ضروری نہیں،
ورثاء کو اپنی ذمہ داری کا خود احساس ہونا چاہئے،
اور ورثاء میں سے اسے پورا کرنے کی زیادہ ذمہ داری اولاد پر ہے،
اگر نذر کا تعلق مال سے ہے تو اسے پوری کرنا مستحب ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1546   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1809  
´حج بدل کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیچھے سوار تھے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ کے پاس فتویٰ پوچھنے آئی تو فضل اسے دیکھنے لگے اور وہ فضل کو دیکھنے لگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فضل کا منہ اس عورت کی طرف سے دوسری طرف پھیرنے لگے ۱؎، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پر (عائد کردہ) فریضہ حج نے میرے والد کو اس حالت میں پایا ہے کہ وہ بوڑھے ہو چکے ہیں، اونٹ پر نہیں بیٹھ سکتے کیا میں ان کی جانب سے حج کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اور یہ واقعہ حجۃ الوداع میں پیش آیا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1809]
1809. اردو حاشیہ:
➊ جہاں کہیں کوئی خلاف شریعت عم ل(منکر) نظر آئے تو مسلمان کو چاہیے کہ بالفعل اس کو روکنے کی کوشش کرے جیسے رسول اللہﷺ نے حضرت فضل کا چہرہ پھیر کر انہیں غلط نظر سے منع فرمایا۔
➋ جب کوئی شخص کسی ایسے مرض میں مبتلا ہوکہ شفا یابی بظاہر مشکل معلوم ہو تو اس کی طرف سے کوئی دوسرا شخص حج بدل کر سکتا ہے۔ لیکن اگر شفایابی کی امید ہوتو انتظار کیا جائے۔
➌ جب کوئی شخص از خود کسی کی طرف سے نائب بن جائے تو اس پر تکمیل حج لازم ہے۔
➍ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت بوقت ضرورت غیر محرم مردوں کےساتھں بات چیت کر سکتی ہے۔
➎ یہ حدیث «غض بصر» نگاہ نیچی رکھنے کے وجوب اور اجنبی عورت کی طرف دیکھنے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے۔
➏ عورت اپنے باپ کی طرف سے حج بدل کر سکتی ہے۔بشرطیکہ پہلے وہ اپناحج کر چکی ہو۔
➐ ایک سواری پر دو آدمی بھی سوار ہو سکتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1809