صحيح مسلم
كِتَاب الصِّيَامِ -- روزوں کے احکام و مسائل
27. باب قَضَاءِ الصِّيَامِ عَنِ الْمَيِّتِ:
باب: میت کی طرف سے روزوں کی قضا کا بیان۔
حدیث نمبر: 2701
وحَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي خَلَفٍ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَطَاءٍ الْمَكِّيِّ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَتَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بِمِثْلِ حَدِيثِهِمْ، وَقَالَ: صَوْمُ شَهْرٍ.
عبدالملک بن ابی سلیمان نے عبداللہ بن عطاء سے، انھوں نے سلیمان بن بریرہ سے اور انھوں نے اپنے والد سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی۔۔۔۔ (آگے) ان کی حدیث کے مانند (بیان کیا) اور انھوں نے بھی کہا: "ایک ماہ کے ر وزے۔"
امام صاحب ایک اور استاد سے سلیمان بن بریدہ کی اپنے باپ سے روایت بیان کرتے ہیں اور اس میں ایک ماہ کے روزوں کا ذکر ہے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2701  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مختلف احادیث میں کہیں مرد کی آمد کا تذکرہ ہے اور کہیں عورت کا،
بعض جگہ ایک ماہ کے روزے ہیں اور بعض جگہ دو ماہ کے اور بقول امام نووی رحمۃ اللہ علیہ ان احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
سوال مرد نے بھی کیا اور عورت نے بھی،
ایک ماہ کے بارے میں سوال ہوا اور دو ماہ کے بارے میں بھی اور ان سب احادیث سے مشترکہ طور پر یہ بات ثابت ہوئی کہ ولی میت کی طرف سے روزہ رکھ سکتا ہے اور ان احادیث کے مخالف کوئی صحیح اورمرفوع حدیث موجود نہیں ہے۔
اور ان احادیث کو اطعام پر محمول کرنا بلاوجہ اور بلاضرورت ہے اور ظاہری معنی پر محمول کرنے میں کوئی مانع یا رکاوٹ موجود نہیں ہے اور ان احادیث صحیحہ پر تنقید اور اعتراض بیجا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2701