صحيح مسلم
كِتَاب الصِّيَامِ -- روزوں کے احکام و مسائل
32. باب جَوَازِ صَوْمِ النَّافِلَةِ بِنِيَّةٍ مِنَ النَّهَارِ قَبْلَ الزَّوَالِ وَجَوَازِ فِطْرِ الصَّائِمِ نَفْلاً مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ:
باب: زوال سے قبل نفلی روزے کی نیت کا جواز اور بلاعذر اس کے توڑ دینے کا بیان، اور بہتر یہ ہے کہ اس کو پورا کیا جائے۔
حدیث نمبر: 2714
وحَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ بِنْتُ طَلْحَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ: " يَا عَائِشَةُ، هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ؟ "، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا عِنْدَنَا شَيْءٌ، قَالَ: " فَإِنِّي صَائِمٌ "، قَالَتْ: فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُهْدِيَتْ لَنَا هَدِيَّةٌ، أَوْ جَاءَنَا زَوْرٌ، قَالَتْ: فَلَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُهْدِيَتْ لَنَا هَدِيَّةٌ أَوْ جَاءَنَا زَوْرٌ، وَقَدْ خَبَأْتُ لَكَ شَيْئًا، قَالَ: " مَا هُوَ؟ "، قُلْتُ: حَيْسٌ، قَالَ: " هَاتِيهِ "، فَجِئْتُ بِهِ، " فَأَكَلَ "، ثُمَّ قَالَ: " قَدْ كُنْتُ أَصْبَحْتُ صَائِمًا "، قَالَ طَلْحَةُ فَحَدَّثْتُ مُجَاهِدًا بِهَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: ذَاكَ بِمَنْزِلَةِ الرَّجُلِ يُخْرِجُ الصَّدَقَةَ مِنْ مَالِهِ فَإِنْ شَاءَ أَمْضَاهَا، وَإِنْ شَاءَ أَمْسَكَهَا.
عبدالواحد بن زیاد نے حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں طلحہ بن یحییٰ نے حدیث سنائی، (انھوں نے کہا:) مجھے عائشہ بنت طلحۃ نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث سنائی، کہا: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "اے عائشہ!کیا تمھارے پاس (کھانے کی) کوئی چیز ہے؟"کہا: تو میں نے عرض کی!اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے پاس کوئی چیز نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو (پھر) میں روزے سے ہوں۔"اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے تو ہمارے پاس ہدیہ بھیجاگیا یا ہمارے پاس ملاقاتی (جو ہدیہ لائے) آگئے۔کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے، میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہمیں ہدیہ دیا گیا ہے۔یا ہمارے پاس مہمان آئے۔اورمیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کچھ محفوظ کرکے رکھا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ کیا ہے؟"میں نے عرض کی: وہ حیس (کھجور، گھی اورپنیر سے بنا ہوا کھانا) ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے لایئے"تو میں اسے لے آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھا لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " میں نے ر وزے کی حالت میں صبح کی تھی۔" طلحہ نے کہا: میں نے یہ حدیث مجاہد کو سنائی تو انھوں نے کہا: یہ اس آدمی کی طرح ہے جو ا پنے مال سے صدقہ نکالتا ہے، اگر وہ چاہے تو دے دے اور اگر وہ چاہے تو اس کو روک لے۔
حضرت اُم المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا! کیا تمھارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو میں روزہ دار ہوں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے تو ہمارے پاس تحفہ بھیجا گیا یا ہمارے پاس مہمان آ گئے (ان کے پاس ہدیہ تھا یا ان کی خاطر ہدیہ پہنچا) تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے پاس ہدیہ آیا ہے یا ہمارے پاس مہمان آئے ہیں اور میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کچھ چھپا رکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: وہ حیس ہے (کھجور،گھی اور پنیر کا آمیزہ) آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لائیے۔ تو میں اسے لے آئی اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے کھا لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں روزے سے تھا۔ طلحہ کہتے ہیں اس نے یہ حدیث مجاہد کو سنائی تو اس نے کہا: یہ ایسا ہی ہے کہ ایک آدمی اپنے مال سے نفلی صدقہ لاتا ہے تو اس کی مرضی ہے اس کو صدقہ کردے یا روک لے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1701  
´فرض روزے کی نیت رات میں ضروری ہونے اور نفلی روزے میں اختیار ہونے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آتے اور پوچھتے: کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ ہم کہتے: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے: میں روزے سے ہوں، اور اپنے روزے پر قائم رہتے، پھر کوئی چیز بطور ہدیہ آتی تو روزہ توڑ دیتے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کبھی روزہ رکھتے، اور کبھی کھول دیتے، میں نے پوچھا: یہ کیسے؟ تو کہا: اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کوئی صدقہ نکالے پھر کچھ دے اور کچھ رکھ لے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1701]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نفلی روزہ پورا کرنا ثواب ہے اور کسی وجہ سے نامکمل چھوڑ دینا بھی ناجا ئز ہے لیکن اس صورت میں اسے ثواب نہیں ملے گا۔

(2)
  نفلی صدقے میں جس قدر چیز دینے کا اراده کیا جا ئے اگر دیتے وقت اس سے کم دے دے تو بھی گناه گا ر نہیں صرف ثواب اتنا کم ہو جا ئے گا۔

(3)
  مسئلہ واضح کر نے کے لئے اس سے ملتے جلتے مسئلے کی مثال دے کر سمجھا دینا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1701   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 734  
´رات میں روزے کی نیت کئے بغیر نفلی روزہ رکھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آتے تو پوچھتے: کیا تمہارے پاس کھانا ہے؟ میں کہتی: نہیں۔ تو آپ فرماتے: تو میں روزے سے ہوں، ایک دن آپ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے پاس ایک ہدیہ آیا ہے۔ آپ نے پوچھا: کیا چیز ہے؟ میں نے عرض کیا: حیس، آپ نے فرمایا: میں صبح سے روزے سے ہوں، پھر آپ نے کھا لیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 734]
اردو حاشہ: 1 ؎:
ایک قسم کا کھانا جو کھجور،
ستّو اور گھی سے تیار کیا جاتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 734   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2455  
´روزے کی نیت نہ کرنے کی رخصت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب میرے پاس تشریف لاتے تو پوچھتے: کیا تمہارے پاس کچھ کھانا ہے؟ جب میں کہتی: نہیں، تو فرماتے: میں روزے سے ہوں، ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، تو ہم نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارے پاس ہدیے میں (کھجور، گھی اور پنیر سے بنا ہوا) ملیدہ آیا ہے، اور اسے ہم نے آپ کے لیے بچا رکھا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لاؤ اسے حاضر کرو۔‏‏‏‏ طلحہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے سے ہو کر صبح کی تھی لیکن روزہ توڑ دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2455]
فوائد ومسائل:
نفلی روزے میں یہ رخصت ہے کہ اس کی نیت بعد از فجر بقول بعض زوال سے پہلے تک ہو سکتی ہے۔
ایسے ہی اگر کسی نے نفلی روزے کی نیت کر رکھی ہو تو کسی معقول عذر کی بنا پر افطار کر سکتا ہے۔
اس کی قضا کرنا ضروری نہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2455