صحيح مسلم
كِتَاب الصِّيَامِ -- روزوں کے احکام و مسائل
34. باب صِيَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَيْرِ رَمَضَانَ وَاسْتِحْبَابِ أَنْ لاَ يُخْلِيَ شَهْرًا عَنْ صَوْمٍ.
باب: رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں اور ان کے استحباب کا بیان۔
حدیث نمبر: 2723
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الشَّهْرِ مِنَ السَّنَةِ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ، وَكَانَ يَقُولُ: خُذُوا مِنَ الْأَعْمَالِ مَا تُطِيقُونَ، فَإِنَّ اللَّهَ لَنْ يَمَلَّ حَتَّى تَمَلُّوا، وَكَانَ يَقُولُ: أَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَى اللَّهِ، مَا دَاوَمَ عَلَيْهِ صَاحِبُهُ، وَإِنْ قَلَّ ".
یحییٰ بن ابی کثیر نے ابو سلمہ سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےروایت کی، اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سال کے کسی مہینے میں، شعبان سے بڑھ کر، روزے نہیں رکھتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کر تے تھے: "اتنے ہی اعمال اپناؤ جتنوں کی تم طاقت رکھتے ہو۔کیونکہ اللہ تعالیٰ ہرگز نہیں اکتائے گا حتیٰ کہ تم خود ہی (عمل کرنے سے) اکتا جاؤ گے۔"اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کر تے تھے: "اللہ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل و ہ ہے جس پر عمل کرنے والا ہمیشہ قائم رہے چاہے وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سال بھر کسی ماہ میں شعبان سے زیادہ روزے دار نہیں ہوتے تھے اور فرماتے تھے۔ اس قدر اعمال کرو۔ جو تمھارے بس میں ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ (اجرو ثواب دینے سے) نہیں اکتائے گا تم خود ہی (عمل کرنے سے) اکتا جاؤ گے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: اللہ کے ہاں محبوب ترین عمل وہ ہے جس پر صاحب عمل ہمیشگی کرے اگرچہ وہ تھوڑا ہی ہو۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1649  
´شعبان کے روزوں کو رمضان کے روزوں سے ملانے کا بیان۔`
ربیعہ بن الغاز سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے سلسلے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورے شعبان روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ اسے رمضان سے ملا دیتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1649]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سارا شعبان روزے رکھنے سے مراد شعبان میں کثرت سے نفلی روزے رکھنا ہے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا میں نے نبی کریمﷺ کو رمضان کے سوا کسی مہینے میں پورا مہینہ روزے رکھتے نہیں دیکھا۔
اور میں نے نبی کریمﷺ کو کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزے رکھتے نہیں دیکھا (صحیح البخاري، الصوم، باب صوم شعبان، حدیث: 1969)

(2)
بہتر یہ ہے کہ نصف شعبان کے بعد نفلی روزے نہ رکھے جایئں۔
دیکھئے: (حدیث: 1651)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1649   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2431  
´شعبان کے روزے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مہینوں میں سب سے زیادہ محبوب یہ تھا کہ آپ شعبان میں روزے رکھیں، پھر اسے رمضان سے ملا دیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2431]
فوائد ومسائل:
مختلف روایات کی روشنی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ بیان یا تو مبالغہ پر مبنی ہے، یا یہ مقصد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات روزے ابتدائے مہینہ میں رکھتے، کبھی درمیان مہینہ میں اور کبھی آخر مہینہ میں، یا یہ مقصد ہے کہ خال خال ہی کسی دن ناغہ کرتے تھے ورنہ عام ایام میں روزے ہی رکھتے تھے۔
ماہِ شعبان فضیلت والا مہینہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے ہاں پیش کیے جاتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش کیے جائیں تو میں روزے سے ہوں۔
(سنن النسائي‘ الصيام‘ حديث:2359) اسی طرح شعبان کی پندرھویں رات کی فضیلت کی بابت ایک حدیث سندا صحیح ہے اس میں آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس رات شرک کرنے اور بغض و کینہ رکھنے والے کے سوا تمام لوگوں کی مغفرت فرما دیتا ہے۔
(مجمع الزوائد‘ 8/65 وابن حبان‘ حديث:5665 والصحيحة‘ حديث:1144) روزے کی بابت آپ سے مروی ہے آپ شعبان کے مہینے کے کسی دن کو روزے کے ساتھ خاص نہیں کرتے تھے بلکہ اس ماہ میں اکثر روزے رکھا کرتے تھے، دوسری بات کہ پندرھویں رات کو اگر کوئی اس نیت سے عبادت کرتا ہے کہ اس رات اللہ تعالیٰ بندوں کی مغفرت فرماتا ہے، تو وہ ممکن حد تک ہر کسی کے حقوق کا لحاظ رکھتے ہوئے عبادت کر سکتا ہے، لیکن اس رات میں چراغاں کرنا یا موم بتیاں جلانا یا اگلے دن کا روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔
واللہ اعلم.
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2431