صحيح مسلم
كِتَاب الصِّيَامِ -- روزوں کے احکام و مسائل
35. باب النَّهْيِ عَنْ صَوْمِ الدَّهْرِ لِمَنْ تَضَرَّرَ بِهِ أَوْ فَوَّتَ بِهِ حَقًّا أَوْ لَمْ يُفْطِرِ الْعِيدَيْنِ وَالتَّشْرِيقَ وَبَيَانِ تَفْضِيلِ صَوْمِ يَوْمٍ وَإِفْطَارِ يَوْمٍ:
باب: صوم دھر یہاں تک کہ عیدین اور ایام تشریق میں بھی روزہ رکھنے کی ممانعت اور صوم داؤدی یعنی ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن روزہ نہ رکھنے کی فضلیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2729
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ وَهْبٍ يُحَدِّثُ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ . ح وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: أُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ يَقُولُ: لَأَقُومَنَّ اللَّيْلَ وَلَأَصُومَنَّ النَّهَارَ مَا عِشْتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " آنْتَ الَّذِي تَقُولُ ذَلِكَ؟ "، فَقُلْتُ لَهُ: قَدْ قُلْتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِنَّكَ لَا تَسْتَطِيعُ ذَلِكَ فَصُمْ وَأَفْطِرْ وَنَمْ وَقُمْ وَصُمْ مِنَ الشَّهْرِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَإِنَّ الْحَسَنَةَ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا وَذَلِكَ مِثْلُ صِيَامِ الدَّهْرِ "، قَالَ قُلْتُ: فَإِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: " صُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمَيْنِ "، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " صُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا وَذَلِكَ صِيَامُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَ أَعْدَلُ الصِّيَامِ "، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ "، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍ وَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: لَأَنْ أَكُونَ قَبِلْتُ الثَّلَاثَةَ الْأَيَّامَ الَّتِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَهْلِي وَمَالِي ".
ابن شہاب نے سعید بن مسیب اور ابو سلمہ بن عبدالرحمان سے روایت کی کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی کہ وہ (عبداللہ) کہتاہے: میں جب تک زندہ ہوں (مسلسل) رات کا قیام کروں گا اور دن کا روزہ رکھوں گا۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم ہی ہو جو یہ باتیں کرتے ہو؟"میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !واقعی میں نے ہی یہ کہا ہے۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم یہ کام نہیں کرسکو گے، لہذا روزہ رکھو اور روزہ ترک بھی کرو۔نیند بھی کرو اور قیام بھی کرو، مہینے میں تین دن کے روزے رکھ لیا کرو کیونکہ ہر نیکی (کا اجر) دس گنا ہے۔اس طرح یہ سارے وقت کے روزوں کی طرح ہے۔"میں نے عرض کی: میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک دن روزہ رکھو اور دو دن نہ رکھو۔"کہا: "میں نے عرض کی: میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک دن روزہ رکھو اورایک دن نہ رکھو۔"یہ داود علیہ السلام کا روزہ ہے۔اور یہ روزوں کا سب سے منصفانہ (طریقہ) ہے۔"کہا: میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس سے افضل کوئی صورت نہیں۔" عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ بات مجھے اپنے اہل وعیال سے بھی زیاد عزیز ہے کہ میں (مہینے میں) تین دنوں کی بات تسلیم کرلیتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی تھی۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے بارے میں یہ اطلاع دی گئی کہ وہ کہتا ہے میں زندگی بھر رات کو قیام کروں گا اور دن کو روزہ رکھوں گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو ہی ہے جو یہ باتیں کرتا ہے؟ تو میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! واقعی میں نے یہ باتیں کہی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم یہ کام نہیں کر سکو گے۔ اس لیے روزہ رکھو بھی اور افطار بھی کرو، نیند بھی کرو اور قیام بھی اور ہر ماہ تین روزے رکھ لیا کرو کیونکہ ہر نیکی کا درجہ کم از کم دس (10) گنا ہے اس طرح یہ روزے ہمیشہ ہمیشہ کے برابر ہو جائیں گے۔ میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دن روزہ رکھو اور دو دن افطار کرو۔ تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اس سے زیادہ اور بہتر کی طاقت رکھتا ہوں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن نہ رکھو یہ داؤدی روزہ ہے اور یہ بہترین روزے ہیں۔ میں نے کہا: میں اس سے بہتر کی طاقت رکھتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے بہتر کوئی صورت نہیں ہے۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں اگر میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کی تین دن کی بات تسلیم کر لیتا تو یہ میرے لیے میرے اہل و مال سے زیادہ پیاری ہوتی (کیونکہ بڑھاپا، کمزوری میں ان کے لیے اپنی بات کی پابندی وقت اور مشقت کا باعث بنی رہی تھی)
  مولانا محمد ابوالقاسم سيف بنارسي حفظ الله، دفاع بخاري، تحت الحديث صحيح بخاري 1976  
´ہمیشہ روزہ رکھنا`
«. . . فَصُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا، فَذَلِكَ صِيَامُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَ أَفْضَلُ الصِّيَامِ . . .»
. . . فرمایا کہ اچھا ایک دن روزہ رکھ اور ایک دن بے روزہ کے رہ کہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ایسا ہی تھا اور روزہ کا یہ سب سے افضل طریقہ ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ: 1976]

فقہ الحدیث
منکرین اعتراض کرتے ہیں:
امام بخاری صائم الدہر رہا کرتے تھے، جیسا کہ کتاب طبقات کبریٰ امام عبدالوہاب شعرانی، مطبوعہ مصر [50/1] امام بخاری کے حال میں لکھا ہے:
«محمد بن إسماعيل البخاري، كان صائم الدھر، وجاع حتي انتھي أكله كل يوم إلي تمرة أو لوزة.»
محمد بن اسماعیل بخاری صائم الدہر تھے اور اتنی فاقہ کشی کی کہ ان کی روزانہ کی غذا ایک خرما یا ایک بادام تک پہنچ گئی۔
{أقول:} اے جناب! آپ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے صائم الدھر ہونے کا مطلب نہیں سمجھا، وہ ہرگز حدیث کے خلاف عامل نہیں ہوئے، بلکہ حدیث میں جیسا مہینے میں تین دن روزہ رکھنے کو کہا گیا ہے، ویسا ہی امام بخاری رحمہ اللہ کرتے اور پھر بقیہ ایام نہایت کم خوراکی سے بسر کرتے، امام بخاری رحمہ اللہ کے صائم الدھر ہونے کہ یہ معنی ہیں، ورنہ جس معنی میں آپ نے سمجھا ہے، اس اعتبار سے شعرانی کی عبارت میں تناقض ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ دن کو کھائیں بھی (ایک کھجور یا بادام ہی سہی) اور پھر صائم بھی ہوں؟ «ھل ھذا إلا تناقض!»

مطلب یہ ہے کہ ان کی اس قدر کم خوراکی بھی صیام کے مثل ہے، یہ نہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کچھ کھاتے ہی نہ تھے،
اسی طبقات کبریٰ للشعرانی میں ہے:
ابوالحسن یوسف بن ابی ذر کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے چالیس سال تک نانخورش نہیں کھایا، صرف خشک روٹیوں پر گزارا کرتے رہے، جب علیل ہوئے تو بہ تجویز شیوخ روٹیوں کے ساتھ شکر کھانی منظور کی۔ ۱؎

جس سے معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کچھ کھایا بھی کرتے تھے، لیکن چونکہ یہ کھانا اور نہ کھانا دونوں ایک برابر تھا، لہٰذا ان کو صائم الدہر کہا گیا، صائم الدہر کا وہ مطلب نہیں ہے، جو آپ نے سمجھا ہے کہ ہمیشہ روزہ ہی رکھا کرتے تھے، مطلقاً کچھ کھایا ہی نہیں، بلکہ کچھ ضرور کھاتے، پس یہ عمل ہرگز حدیث کے خلاف نہیں ہوا۔ ۲؎

امام نے تو بقدم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مثل دنیا گزاری۔
------------------
۱؎ [ھدي الساري:ص،481]، [تغليق التعليق 398/5]، [الطبقات الكبري:ص:92]
۲؎ علاوہ ازیں شعرانی نے طبقات میں امام بخاری کے متعلق مذکورہ عمل کی کوئی سند بیان نہیں کی، کیونکہ مذکورہ عمل کے پایہ ثبوت کو پہنچنے کے بعد ہی کسی توجیہ کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ «إذ ليس فيلس!»
   دفاع صحیح بخاری، حدیث/صفحہ نمبر: 132   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1706  
´ہمیشہ روزے رکھنا کیسا ہے؟`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس کا روزہ ہی نہیں ہوا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1706]
اردو حاشہ:
فائدہ:
اس سے معلوم ہو اکہ ہمیشہ روزے رکھنے والے کو با لکل ثواب نہیں ملتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1706   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2427  
´سدا نفلی روزے سے رہنا۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تو آپ نے فرمایا: کیا مجھ سے یہ نہیں بیان کیا گیا ہے کہ تم کہتے ہو: میں ضرور رات میں قیام کروں گا اور دن میں روزہ رکھوں گا؟ کہا: میرا خیال ہے اس پر انہوں نے کہا: ہاں، اللہ کے رسول! میں نے یہ بات کہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیام اللیل کرو اور سوؤ بھی، روزہ رکھو اور کھاؤ پیو بھی، ہر مہینے تین دن روزے رکھو، یہ ہمیشہ روزے رکھنے کے برابر ہے۔‏‏‏‏ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنے اندر اس سے زیادہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2427]
فوائد ومسائل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تلقین عمل میں انتہائی خفیف اور اجر میں بہت عظیم ہے، مگر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی طبیعت زیادہ کی حریص تھی، اس لیے زیادہ کی اجازت طلب کرتے رہے، مگر جب بڑھاپے میں کمزور ہو گئے تو کہا کرتے تھے: کاش میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمائے ہوئے تین دن قبول کر لیے ہوتے، وہ مجھے میرے اہل اور مال سے زیادہ محبوب تھے۔
(صحيح مسلم‘ الصيام‘ حديث:1159)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2427