صحيح مسلم
كِتَاب الصِّيَامِ -- روزوں کے احکام و مسائل
35. باب النَّهْيِ عَنْ صَوْمِ الدَّهْرِ لِمَنْ تَضَرَّرَ بِهِ أَوْ فَوَّتَ بِهِ حَقًّا أَوْ لَمْ يُفْطِرِ الْعِيدَيْنِ وَالتَّشْرِيقَ وَبَيَانِ تَفْضِيلِ صَوْمِ يَوْمٍ وَإِفْطَارِ يَوْمٍ:
باب: صوم دھر یہاں تک کہ عیدین اور ایام تشریق میں بھی روزہ رکھنے کی ممانعت اور صوم داؤدی یعنی ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن روزہ نہ رکھنے کی فضلیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2730
وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ابْنُ الرُّومِيُّ ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ وَهُوَ ابْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ حَتَّى نَأْتِيَ أَبَا سَلَمَةَ ، فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهِ رَسُولًا فَخَرَجَ عَلَيْنَا، وَإِذَا عِنْدَ بَابِ دَارِهِ مَسْجِدٌ، قَالَ: فَكُنَّا فِي الْمَسْجِدِ حَتَّى خَرَجَ إِلَيْنَا، فَقَالَ: إِنْ تَشَاءُوا أَنْ تَدْخُلُوا وَإِنْ تَشَاءُوا أَنْ تَقْعُدُوا هَا هُنَا، قَالَ: فَقُلْنَا: لَا بَلْ نَقْعُدُ هَا هُنَا، فَحَدِّثْنَا، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كُنْتُ أَصُومُ الدَّهْرَ وَأَقْرَأُ الْقُرْآنَ كُلَّ لَيْلَةٍ، قَالَ: فَإِمَّا ذُكِرْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِمَّا أَرْسَلَ إِلَيَّ فَأَتَيْتُهُ، فَقَالَ لِي: " أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَصُومُ الدَّهْرَ وَتَقْرَأُ الْقُرْآنَ كُلَّ لَيْلَةٍ "، فَقُلْتُ: بَلَى يَا نَبِيَّ اللَّهِ، وَلَمْ أُرِدْ بِذَلِكَ إِلَّا الْخَيْرَ، قَالَ: " فَإِنَّ بِحَسْبِكَ أَنْ تَصُومَ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ "، قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: " فَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا "، قَالَ: " فَصُمْ صَوْمَ دَاوُدَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّهُ كَانَ أَعْبَدَ النَّاسِ "، قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، وَمَا صَوْمُ دَاوُدَ؟، قَالَ: " كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا "، قَالَ: " وَاقْرَأْ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ شَهْرٍ "، قَالَ: قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ؟، قَالَ: " فَاقْرَأْهُ فِي كُلِّ عِشْرِينَ "، قَالَ " قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ؟، قَالَ: " فَاقْرَأْهُ فِي كُلِّ عَشْرٍ "، قَالَ: قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ؟، قَالَ " فَاقْرَأْهُ فِي كُلِّ سَبْعٍ وَلَا تَزِدْ عَلَى ذَلِكَ فَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا "، قَالَ: فَشَدَّدْتُ فَشُدِّدَ عَلَيَّ، قَالَ: وَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّكَ لَا تَدْرِي لَعَلَّكَ يَطُولُ بِكَ عُمْرٌ "، قَالَ فَصِرْتُ إِلَى الَّذِي، قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَلَمَّا كَبِرْتُ وَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ قَبِلْتُ رُخْصَةَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
عکرمہ بن عمار نے کہا: ہمیں یحییٰ نے حدیث سنائی کہا: میں اور عبداللہ بن یزید حضرت ابو سلمہ کے پاس حاضری کے لیے (اپنے گھروں سے) روانہ ہوئے۔ہم نے ایک پیغام لے جانے والا آدمی ان کے پاس بھیجا تو وہ بھی ہمارے لئے باہر نکل آئے۔وہاں ان کے گھر کے دروازے کے پاس ایک مسجد تھی، کہا: ہم مسجد میں رہے یہاں تک کہ وہ بھی ہمارے پاس آگئے۔انھوں نے کہا: اگر تم چاہو تو (گھر میں) داخل ہوجاؤ۔ اور اگر چاہو تو یہیں (مسجد میں) بیٹھ جاؤ۔کہا: ہم نے کہا: نہیں، ہم یہیں بیٹھیں گے، آپ ہمیں احادیث سنائیں۔انھوں نے کہا: مجھے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی، کہا: میں مسلسل روزے رکھتا تھا اور ہر رات (قیام میں پورے) قرآن کی قراءت کرتاتھا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میرا ذکر کیا گیا (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے) یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پیغام بھیجا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا مجھے نہیں بتایا گیا کہ تم ہمیشہ (ہرروز) روزہ رکھتے ہو اور ہر رات (پورا) قرآن پڑھتے ہو؟"میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم !کیوں نہیں (یہ بات درست ہے) اور ایسا کرنے میں میرے پیش نظر بھلائی کے سوا کچھ نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمھارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ تم ہر مہینے میں تین دن روزے رکھو۔"میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس سے افضل عمل کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم پر تمھاری بیوی کا حق ہے، تم پر تمھارے مہمانوں کاحق ہے، اور تم پر تمھارے جسم کاحق ہے، " (آخر میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"اللہ کے نبی داود علیہ السلام کے روزوں کی طرح روزے رکھو وہ سب لوگوں سے بڑھ کر عبادت گزار تھے۔"کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !داود علیہ السلام کا روزہ کیا تھا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔"فرمایا: "قرآن کی قراءت ایک ماہ میں (مکمل کیا) کرو۔"کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا۔اسے ہر بیس دن میں پڑھ لیاکرو۔ کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا۔اسے ہر دس دن میں پڑھ لیاکرو۔ کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا۔اسے ہر سات دن میں پڑھ لیاکرو۔اس سے زیادہ نہ کرو تم پر تمھاری بیوی کا حق ہے، تم پر تمھارے مہمانوں کاحق ہے، اور تم پر تمھارے جسم کاحق ہے، "کہا: میں نے (اپنے اوپر) سختی کی تو مجھ پر سختی کی گئی۔اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "تم نہیں جانتے شاید تمھاری عمر طویل ہو۔" کہا: میں اسی کی طرف آگیا جو مجھے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا، جب میں بوڑھا ہوگیا تو میں نے پسند کیا (اور تمنا کی) کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصت قبول کرلی ہوتی۔
یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، میں اور عبداللہ بن یزید دونوں ابوسلمہ کے پاس گئے اور ایک آدمی ان کے پاس بھیجا اور وہ گھر سے نکلے اور ان کے دروازہ پر ایک مسجد تھی کہ جب وہ نکلے تو ہم سب مسجد میں تھے اور انہوں نے کہا: چاہو گھر چلو، چاہو یہاں بیٹھو، ہم نے کہا: یہیں بیٹھیں گے اور آپ ہم سے حدیثیں بیان فرمائیے، انہوں نے کہا: روایت کی مجھ سے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے رکھتا تھا اور ہر شب قرآن پڑھتا تھا (یعنی ساری رات) اور کہا: یا تو میرا ذکر آیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو بلا بھیجا غرض میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم کو کیا خبر نہیں لگی ہے کہ تم ہمیشہ روزے رکھتے ہو اور ساری رات قرآن پڑھتے ہو۔ میں نے کہا: ہاں یا رسول اللہ! اور میں اسے بھلائی چاہتا ہوں (یعنی ریا و سمعہ مقصود نہیں) تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کو اتنا کافی ہے کہ ہر ماہ میں تین دن روزے رکھ لیا کرو۔ میں نے عرض کیا: اے نبی اللہ کے! میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری بی بی کا حق ہے تم پر اور تمہارے ملاقاتیوں کا حق ہے تم پر اور تمہارے جسم کا بھی حق ہے تم پر تو اس لیے تم داؤد علیہ السلام کا روزہ اختیار کرو جو نبی تھے اللہ تعالیٰ کے اور سب لوگوں سے زیادہ اللہ کی عبادت کرنے والے تھے۔ انہوں نے کہا: میں نے عرض کیا کہ اے نبی اللہ تعالیٰ کے! داؤد علیہ السلام کا روزہ کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن ہر ماہ میں ایک بار ختم کیا کرو۔ میں نے عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ اے نبی اللہ تعالیٰ کے! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیس روز میں ختم کیا کرو۔ میں نے عرض کیا کہ اے نبی اللہ تعالیٰ کے! میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دس روز میں ختم کرو۔ میں نے عرض کی: اے نبی اللہ تعالیٰ کے! میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات روز میں ختم کیا کرو اور اس سے زیادہ نہ پڑھو (اس لیے کہ اس سے کم میں تدبر اور تفکر قرآن ممکن نہیں) اس لیے کہ تمہاری بی بی کا حق بھی ہے تم پر اور تمہارے ملاقاتیوں کا حق ہے تم پر اور تمہارے بدن کا حق ہے تم پر۔ کہا: پس میں نے تشدد کیا سو میرے اوپر تشدد ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم نہیں جانتے شاہد تمہار ی عمر دراز ہو۔ (تو اتنا بار تم پر گراں ہو گا اور امور دین میں خلل آئے گا سبحان اللہ! یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور انجام بینی تھی اور آخر وہی ہوا) کہا عبداللہ نے پھر میں اسی حال کو پہنچا جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سے ذکر کیا تھا اور جب میں بوڑھا ہوا تو آرزو کی میں نے کہ کاش میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصت قبول کر لیتا۔
  مولانا محمد ابوالقاسم سيف بنارسي حفظ الله، دفاع بخاري، تحت الحديث صحيح بخاري 1976  
´ہمیشہ روزہ رکھنا`
«. . . فَصُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا، فَذَلِكَ صِيَامُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَ أَفْضَلُ الصِّيَامِ . . .»
. . . فرمایا کہ اچھا ایک دن روزہ رکھ اور ایک دن بے روزہ کے رہ کہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ایسا ہی تھا اور روزہ کا یہ سب سے افضل طریقہ ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ: 1976]

فقہ الحدیث
منکرین اعتراض کرتے ہیں:
امام بخاری صائم الدہر رہا کرتے تھے، جیسا کہ کتاب طبقات کبریٰ امام عبدالوہاب شعرانی، مطبوعہ مصر [50/1] امام بخاری کے حال میں لکھا ہے:
«محمد بن إسماعيل البخاري، كان صائم الدھر، وجاع حتي انتھي أكله كل يوم إلي تمرة أو لوزة.»
محمد بن اسماعیل بخاری صائم الدہر تھے اور اتنی فاقہ کشی کی کہ ان کی روزانہ کی غذا ایک خرما یا ایک بادام تک پہنچ گئی۔
{أقول:} اے جناب! آپ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے صائم الدھر ہونے کا مطلب نہیں سمجھا، وہ ہرگز حدیث کے خلاف عامل نہیں ہوئے، بلکہ حدیث میں جیسا مہینے میں تین دن روزہ رکھنے کو کہا گیا ہے، ویسا ہی امام بخاری رحمہ اللہ کرتے اور پھر بقیہ ایام نہایت کم خوراکی سے بسر کرتے، امام بخاری رحمہ اللہ کے صائم الدھر ہونے کہ یہ معنی ہیں، ورنہ جس معنی میں آپ نے سمجھا ہے، اس اعتبار سے شعرانی کی عبارت میں تناقض ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ دن کو کھائیں بھی (ایک کھجور یا بادام ہی سہی) اور پھر صائم بھی ہوں؟ «ھل ھذا إلا تناقض!»

مطلب یہ ہے کہ ان کی اس قدر کم خوراکی بھی صیام کے مثل ہے، یہ نہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کچھ کھاتے ہی نہ تھے،
اسی طبقات کبریٰ للشعرانی میں ہے:
ابوالحسن یوسف بن ابی ذر کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے چالیس سال تک نانخورش نہیں کھایا، صرف خشک روٹیوں پر گزارا کرتے رہے، جب علیل ہوئے تو بہ تجویز شیوخ روٹیوں کے ساتھ شکر کھانی منظور کی۔ ۱؎

جس سے معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کچھ کھایا بھی کرتے تھے، لیکن چونکہ یہ کھانا اور نہ کھانا دونوں ایک برابر تھا، لہٰذا ان کو صائم الدہر کہا گیا، صائم الدہر کا وہ مطلب نہیں ہے، جو آپ نے سمجھا ہے کہ ہمیشہ روزہ ہی رکھا کرتے تھے، مطلقاً کچھ کھایا ہی نہیں، بلکہ کچھ ضرور کھاتے، پس یہ عمل ہرگز حدیث کے خلاف نہیں ہوا۔ ۲؎

امام نے تو بقدم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مثل دنیا گزاری۔
------------------
۱؎ [ھدي الساري:ص،481]، [تغليق التعليق 398/5]، [الطبقات الكبري:ص:92]
۲؎ علاوہ ازیں شعرانی نے طبقات میں امام بخاری کے متعلق مذکورہ عمل کی کوئی سند بیان نہیں کی، کیونکہ مذکورہ عمل کے پایہ ثبوت کو پہنچنے کے بعد ہی کسی توجیہ کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ «إذ ليس فيلس!»
   دفاع صحیح بخاری، حدیث/صفحہ نمبر: 132   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1706  
´ہمیشہ روزے رکھنا کیسا ہے؟`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس کا روزہ ہی نہیں ہوا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1706]
اردو حاشہ:
فائدہ:
اس سے معلوم ہو اکہ ہمیشہ روزے رکھنے والے کو با لکل ثواب نہیں ملتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1706   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2427  
´سدا نفلی روزے سے رہنا۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تو آپ نے فرمایا: کیا مجھ سے یہ نہیں بیان کیا گیا ہے کہ تم کہتے ہو: میں ضرور رات میں قیام کروں گا اور دن میں روزہ رکھوں گا؟ کہا: میرا خیال ہے اس پر انہوں نے کہا: ہاں، اللہ کے رسول! میں نے یہ بات کہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیام اللیل کرو اور سوؤ بھی، روزہ رکھو اور کھاؤ پیو بھی، ہر مہینے تین دن روزے رکھو، یہ ہمیشہ روزے رکھنے کے برابر ہے۔‏‏‏‏ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنے اندر اس سے زیادہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2427]
فوائد ومسائل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تلقین عمل میں انتہائی خفیف اور اجر میں بہت عظیم ہے، مگر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی طبیعت زیادہ کی حریص تھی، اس لیے زیادہ کی اجازت طلب کرتے رہے، مگر جب بڑھاپے میں کمزور ہو گئے تو کہا کرتے تھے: کاش میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمائے ہوئے تین دن قبول کر لیے ہوتے، وہ مجھے میرے اہل اور مال سے زیادہ محبوب تھے۔
(صحيح مسلم‘ الصيام‘ حديث:1159)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2427