صحيح مسلم
كِتَاب الصِّيَامِ -- روزوں کے احکام و مسائل
35. باب النَّهْيِ عَنْ صَوْمِ الدَّهْرِ لِمَنْ تَضَرَّرَ بِهِ أَوْ فَوَّتَ بِهِ حَقًّا أَوْ لَمْ يُفْطِرِ الْعِيدَيْنِ وَالتَّشْرِيقَ وَبَيَانِ تَفْضِيلِ صَوْمِ يَوْمٍ وَإِفْطَارِ يَوْمٍ:
باب: صوم دھر یہاں تک کہ عیدین اور ایام تشریق میں بھی روزہ رکھنے کی ممانعت اور صوم داؤدی یعنی ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن روزہ نہ رکھنے کی فضلیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2743
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ جميعا، عَنِ ابْنِ مَهْدِيٍّ ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو : قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، بَلَغَنِي أَنَّكَ تَصُومُ النَّهَارَ، وَتَقُومُ اللَّيْلَ، فَلَا تَفْعَلْ فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَظًّا، وَلِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَظًّا، وَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَظًّا، صُمْ وَأَفْطِرْ، صُمْ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَذَلِكَ صَوْمُ الدَّهْرِ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ بِي قُوَّةً، قَالَ: " فَصُمْ صَوْمَ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام، صُمْ يَوْمًا، وَأَفْطِرْ يَوْمًا "، فَكَانَ يَقُولُ: يَا لَيْتَنِي أَخَذْتُ بِالرُّخْصَةِ.
سعید بن میناء نے ہمیں حدیث سنائی، کہا: عبداللہ بن عمرو عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "اے عبداللہ بن عمرو! مجھے خبر ملی ہے کہ تم (روزانہ) دن کاروزہ رکھتے ہو اور رات بھر قیام کرتے ہو، ایسا مت کرو کیونکہ تم پرتمھارے جسم کا حصہ (ادا کرناضروری) ہے، تم پر تمھاری آنکھ کا حصہ (ادا کرنا ضروری ہے) تم پر تمھاری بیوی کا حصہ (ادا کرنا ضروری ہے) روزے رکھو اور ترک بھی کرو، ہر مہینے میں سے تین دن کے روزے رکھ لیا کرو۔یہ سارے وقت کے روزوں (کے برابر) ہیں۔"میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے اندر (زیادہ روزے رکھنے کی) قوت ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم داود علیہ السلام کے روزے کی طرح (روزے) رکھو، وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن چھوڑ دیتے تھے۔" وہ کہا کرتے تھے: کاش! میں نے رخصت کو قبول کیا ہوتا۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبد اللہ بن عمرو! مجھے خبر ملی ہے کہ تم دن کو روزہ رکھتے ہو اور رات کو قیام کرتے ہو، ایسا نہ کرو، کیونکہ تیرے جسم کا تجھ پر حق ہے تیری آنکھوں کا تم پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حصہ ہے روزہ رکھوبھی اور روزہ افطار بھی کرو، ہر ماہ تین روزے رکھ لیا کرو تو یہ صوم الدہر ہو جائیں گے میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنے اندر قوت پاتا ہوں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو داؤد علیہ السلام کے روزے رکھو ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو۔ (عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بعد میں) کہا کرتے تھے۔ اے کاش! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی رخصت قبول کر لیتا۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 567  
´نفلی روزے اور جن دنوں میں روزہ رکھنا منع ہے`
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس نے (گویا) روزہ نہیں رکھا۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم میں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ ہیں کہ نہ روزہ رکھا نہ افطار کیا۔ [بلوغ المرام/حدیث: 567]
567 لغوی تشریح:
«لَاصَامَ مَنْ صَامَ الَّابَدَ» اس سے ہمیشہ اور سال بھر روزہ رکھنا مراد ہے۔ اور ہمیشہ روزہ رکھنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ یہ طریقہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے جس کا کوئی اجر و ثواب نہیں ملے گا۔
«لَاصَامَ وَلَا اَفْطَرَ» یعنی ہمیشہ روزہ رکھنے والے کا نہ روزہ ہے اور نہ افطار ہے۔ روزہ نہ ہونے کا مفہوم تو یہی ہے کہ یہ سنت کے خلاف ہے۔ اور نہ افطار کیا کا مفہوم یہ ہے کہ وہ کھانے پینے کی چیزوں سے محروم رہا اور روزے میں جن چیزوں سے رکا جاتا ہے، اس نے ان چیزوں سے کوئی فائدہ حاصل نہ کیا کیونکہ وہ اپنے آپ کو روزے دار سمجھتا رہا۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ ہمیشہ روزہ رکھنا ناجائز اور حرام ہے اور باقی سارا سال روزے رکھ کر صرف عیدین اور ایام تشریق کے روزے نہ رکھنے سے یہ کراہت رفع نہیں ہو جاتی۔ ٭
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 567   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2743  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
دین اسلام چونکہ اعتدال اور میانہ روی کا دین ہے۔
اس لیے دین کے ساتھ دنیوی ضرورتوں کو نظر انداز نہیں کرتا،
بلکہ دونوں کے حسین امتزاج کی دعوت دیتا ہے اپنے جسم وجان،
اہل وعیال اور دوست واحباب کے حقوق کی ادائیگی پر زور دیتا ہے اور انسان پر صرف اتنا بوجھ ڈالتا ہے۔
جس سے انسان کے دنیوی حقوق و فرائض متاثر نہ ہوں اور نہ اس کے جسم وجاں کو ضررونقصان یا ضرورت سے زائد مشقت وکلفت کا بار برداشت کرنا پڑے،
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذوق عبادت بہت بڑھا ہوا تھا،
وہ ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے اور رات بھر نفل پڑھتے جن میں پورا قرآن مجید ختم کرتے،
باپ نے شکایت کی کہ وہ اپنی بیوی کے حقوق نظر انداز کررہے ہیں۔
تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ تم نے جو رویہ اختیار کیا ہے،
یہ تمہارے جسم وجان کے لیے تباہی کا باعث بنے گا اور اہل وعیال اوردوسروں کے حقوق بھی متاثر ہوں گے،
اس لیے اعتدال اور میانہ روی اختیار کرتے ہوئے،
حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو پورا کرو آسان رویہ اختیار کرو،
ایک ماہ میں تین روزے رکھو اور ایک ماہ میں قرآن مجید ختم کرو،
یہ امت کے عام افراد کے اعتبار سے روحانی تربیت،
تزکیہ نفس اور تقرب الٰہی کا بہترین نسخہ ہے۔
لیکن اپنے ظروف اور احوال اور جسم وجان،
اہل وعیال اور دوست واحباب کے حقوق کی روایت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس پر اضافہ جائز ہے،
اس لیے صوم الدہر کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے جمہور امت کے نزدیک اگر صوم الدہر سے کس کا حق ضائع نہ ہو،
باقی عبادات متاثر نہ ہوں اور روزہ رکھنے میں اپنی معیشت ومعاشرت میں خلل اور خرابی پیدا نہ ہو۔
انسان کے نفس کو ضررلاحق نہ ہوتو اس صورت میں جائز ہے بشرط یہ کہ عیدین اور ایام تشریق میں روزہ رکھے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایسی صورت میں مستحب ہے اکثراحناف،
احمد اور اسحاق کے نزدیک مکروہ تنزیہی ہے۔
ابن حزم اور بعض احناف کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے صحیح بات یہ ہے کہ اس کے لیے قاعدہ کلیہ یا عام ضابطہ بنانا،
جس میں استثناء نہ ہو،
ممکن نہیں ہے۔
اصل چیز تمام حقوق کی ادائیگی ہے،
ہر صاحب حق کو اس کا حق ملنا چاہیے،
اگر حقوق میں کوتاہی پیدا ہوتی ہے تو پھر یہ جائز نہیں،
اگر حق واجب فوت ہو گا تو یہ مکروہ تحریمی ہوں گے اور اگر حق مندوب فوت ہوگا تو مکروہ تنزیہی یعنی خلاف اولی اور نامناسب ہوں گے،
اس لیے آپ کا روزوں کے بارے میں مستقل معمول نہ تھا اور آپ نے داؤدی روزوں کو ترجیح دی تھی،
بشرط یہ کہ حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو۔
یہ حال قراءت قرآن کا ہے کہ جتنی قراءت پر ہمیشگی ممکن ہو،
حقوق وفرائض متاثر نہ ہو اور طبعیت کے اندر نشاط قائم رہے اور دل میں بیزاری اور اکتاہٹ پیدا نہ ہو،
ایک انسان تمام ذمہ داریوں سے سبکدوشی ہو چکا ہے وہ ہر وقت دن،
رات فارغ ہے،
کوئی کام کاج نہیں ہے،
وہ فرصت کے ہر لمحہ میں پڑھ سکتا ہے،
اگر اس کو معانی اور مطالب کا پتہ ہی نہیں ہے اور نہ سیکھنے کا شوق وذوق تو وہ اپنی نیت کے مطابق،
جس قدر قرآن چاہے ختم کر سکتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2743