صحيح مسلم
كِتَاب الصِّيَامِ -- روزوں کے احکام و مسائل
37. باب صَوْمِ سَرَرِ شَعْبَانَ:
باب: شعبان کے روزوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 2753
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ ابْنِ أَخِي مُطَرِّفِ بْنِ الشِّخِّيرِ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُطَرِّفًا يُحَدِّثُ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ: " هَلْ صُمْتَ مِنْ سُرَرِ هَذَا الشَّهْرِ شَيْئًا؟ "، يَعْنِي شَعْبَانَ، قَالَ: لَا، قَالَ: فَقَالَ لَهُ: " إِذَا أَفْطَرْتَ رَمَضَانَ، فَصُمْ يَوْمًا أَوْ يَوْمَيْنِ "، شُعْبَةُ الَّذِي شَكَّ فِيهِ، قَالَ: وَأَظُنُّهُ قَالَ يَوْمَيْنِ،
محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے مطرف بن شخیر کے بھتیجے سے حدیث سنا ئی کہا: میں نے مطرف کو حضرت عمرا ن بن حصین رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کرتے ہو ئے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے پو چھا: کیا تم نے اس مہینے یعنی شعبا ن کے وسط (یا دوران) میں کچھ روزے رکھے ہیں؟اس نے جواب دیا: نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرما یا: " جب تم رمضا ن کے روزے ختم کر لو اس کے بعد ایک دن یا دو دن کے روزے رکھ لینا۔شعبہ نے۔۔۔جن کو شک ہوا۔۔کہا میرا خیال ہے کہ آپ نے دو دن کے روزے کہا تھا۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے پوچھا: کیا تونے اس ماہ کےسرر سے کوئی روزہ رکھا ہے؟ مراد ماہ شعبان تھا۔ اس نے کہا: نہیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: جب تم رمضان کے روزوں سے فارغ ہو جاؤ تو ایک یا دو روزے رکھ لینا۔ شعبہ کو اس میں شک ہے اور خیال یہی ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دو روزے کہا۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2328  
´رمضان کے استقبال کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے پوچھا: کیا تم نے شعبان کے کچھ روزے رکھے ہیں ۱؎؟، جواب دیا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب (رمضان کے) روزے رکھ چکو تو ایک روزہ اور رکھ لیا کرو، ان دونوں میں کسی ایک راوی کی روایت میں ہے: دو روزے رکھ لیا کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2328]
فوائد ومسائل:
(1) یہ حدیث بظاہر گزشتہ حدیث سے متعارض ہے جس میں ہے کہ رمضان شروع ہونے سے پہلے ایک دو دن کے روزے مت رکھو۔
مگر ان میں جمع کی صورت یہ ہے کہ یہ رخصت اور تاکید اس شخص کے لیے ہے جس نے کسی روزے کی نذر مانی ہو یا وہ پہلے سے خاص دن کے روزے رکھنے کا عادی ہو تو اسے چاہیے کہ حسب معمول اپنے روزے رکھے۔
مگر کوئی سابقہ عادت یا نذر کے بغیر بطور نفل کے استقبالی روزہ رکھنا چاہیے تو اجازت نہیں ہے۔

(2) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس شخص کو رمضان کے بعد ایک یا دو روزے رکھنے کی تاکید فرمائی، وہ شخص مہینے کے آخر میں روزے رکھا کرتا تھا، لیکن اس نے شعبان کے آخر میں اس لیے روزے چھوڑ دیے تھے کہ کہیں استقبالِ رمضان کے ذیل میں نہ آ جائیں جو ممنوع ہیں۔

(3) لفظ (سَرَر) کے مختلف معانی مندرجہ ذیل روایت کے بعد مذکور ہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2328