صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
2. باب مَوَاقِيتِ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ:
باب: میقات حج اور عمرہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 2803
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَخَلَفُ بْنُ هِشَامٍ ، وَأَبُو الرَّبِيعِ ، وَقُتَيْبَةُ جَمِيعًا، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " وَقَّتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ ذَا الْحُلَيْفَةِ، وَلِأَهْلِ الشَّامِ الْجُحْفَةَ، وَلِأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنَ الْمَنَازِلِ، وَلِأَهْلِ الْيَمَنِ يَلَمْلَمَ، قَالَ: فَهُنَّ لَهُنَّ وَلِمَنْ أَتَى عَلَيْهِنَّ مِنْ غَيْرِ أَهْلِهِنَّ مِمَّنْ أَرَادَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ، فَمَنْ كَانَ دُونَهُنَّ فَمِنْ أَهْلِهِ، وَكَذَا فَكَذَلِكَ حَتَّى أَهْلُ مَكَّةَ يُهِلُّونَ مِنْهَا ".
عمرو بن دینا ر نے طاوس سے، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے لیے ذوالحلیفہ شام والوں کے لیے جحفہ نجد والوں کے لیے قرن المنازل اور یمن والو ں کے لیے یلملم کو میقات مقرر کیا اور فرمایا: "یہ (چاروں میقات) ان جگہوں (پر رہنے والے) اور وہاں نہ رہنے والے۔وہاں تک پہنچنے والے ایسے لوگوں کے لیے ہیں جو حج اور عمرے کا ارادہ کریں اور جوان (مقامات) کے اندر ہو وہ اپنے گھر ہی سے احرام باندھ لے جو اس سے زیادہ حرم کے قریب ہو وہ اسی طرح کرے حتی کہ مکہ والے مکہ ہی سے احرا م باندھیں
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ میقات مقرر کیا اور اہل شام کے لیے جحفہ، اہل نجد کے لیے قرن منازل، اہل یمن کے لیے يلملم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ چاروں میقات ان علاقوں کے رہنے والوں کے لیے ہیں اور ان سب لوگوں کے لیے جو دوسرے علاقوں سے ان مقامات سے گزریں، جن کا ارادہ حج یا عمرہ کا ہو، پس جو لوگ ان مقامات کے اندر ہوں تو وہ اپنے گھر ہی سے احرام باندھیں گے اور یہ قاعدہ اس طرح چلے گا، حتی کہ اہل مکہ، مکہ ہی سے احرام باندھیں گے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 590  
´(احرام کے) میقات کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے لیے ذوالحلیفہ، شام والوں کے لیے جحفہ، نجد والوں کے لیے قرن منازل اور یمن والوں کے لیے یلملم کو احرام باندھ کر نیت کرنے کی جگہیں مقرر کیا ہے اور یہ میقاتیں ان کے لیے ہیں (جن کا ذکر ہوا) اور ان لوگوں کے لیے بھی، جو دوسرے شہروں سے ان کے پاس سے حج یا عمرہ کے ارادہ سے گزریں اور جو کوئی ان میقاتوں کے ورے (اندر) ہو وہ جہاں سے چلے وہیں سے (احرام باندھے) یہاں تک کہ مکہ والے مکہ سے احرام باندھیں۔ (بخاری ومسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 590]
590 لغوی تشریح:
«بَابُ الْمَوَاقِيت» «مواقيت»، «ميقات» کی جمع ہے۔ اس سے مراد عبادت کے لیے وقت یا جگہ متعین کرنا ہے۔ اور یہاں ان سے وہ مقامات مراد ہیں جنہیں شارع علیہ السلام نے احرام کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ حج یا عمرہ کرنے والے کے لے اس سے آگے احرام باندھے بغیر حرم کی طرف جانا جائز نہیں ہے۔
«وَقَّتَ» یعنی احرام کے لیے میقات مقرر کیا۔ اور «تَوْقِيت» سے ماخوذ ہے جس کے معنی تحدید و تعین کے ہیں۔
«ذُو الْحُلَيْفَةِ» حا پر ضمہ ہے۔ (تصغیر ہے) مدینہ منورہ اور اس سے ملحقہ علاقوں کی طرف سے آنے والوں کا میقات ہے جو کہ مدینہ طیبہ کے وسط سے پانچ میل کی مسافت پر اور مکہ مکرمہ سے تقریباً ساڑھے چار سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ آج کل بِئرِ عَلِی کے نام سے مشہور ہے۔
«‏‏‏‏اَلْجُحْفَة» جیم پر پیش اور حا ساکن ہے۔ شام، ترکی اور مصر کی جانب سے آنے والوں کا میقات ہے جو کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے جو سمندر کے قریب مکہ مکرمہ سے ساڑھے چار مراحل اور مدینہ طیبہ سے پانچ اور دو تہائی، یعنی تقریباً پونے چھ مراحل پر واقع ہے، یعنی مکہ سے شمال مغرب میں 187 کلومیڑ کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کا نام مھیعہ تھا۔ سیلاب آیا تو وہ سب بہا لے گیا جس کی بنا پر اسے جحفہ کہا جانے لگا کیونکہ «احتحاف» کہتے ہیں جڑ سے اکھیڑ دینے کو۔ اور اس سیلاب نے بھی یہی حشر کیا تھا۔ یہ بہت بڑی بستی تھی مگر اب ویران ہو چکی ہے، اسی لیے آج کل اس سے کچھ پہلے رابغ مقام سے احرام باندھتے ہیں کیونکہ وہاں پانی کا انتظام ہے۔
«قَرْنَ الْمَنَازِلِ» اسے «قَرْنَ الثَّعالِبِ» بھی کہا گیا ہے، یا یہ دو علیحدہ مقام ہیں۔ یہ بیضوی شکل کا چمک دار، گولائی والا اور چکنا پہاڑ ہے جو مکہ مکرمہ سے مشرق کی جانب 94 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ یہ اہل نجد اور عرفات کی طرف سے آنے والوں کا میقات ہے۔
«يَلَمْلَم» یا اور لام دونوں پر فتحہ اور درمیانی میم ساکن ہے۔ مکہ مکرمہ سے جنوب کی طرف دو مرحلوں کی مسافت پر واقع پہاڑ کا نام ہے۔ مکہ مکرمہ اور اس کے درمیان تقریباً 92 کلومیٹر کی مسافت ہے۔ یہ یمن، چین، بنگلہ دیش، افغانستان، بھارت اور پاکستان کی طرف سے آنے والوں کا میقات ہے۔
«هُنَّ» یعنی یہ میقات اور مقامات۔
«لَهُنَّ» ان مذکورہ اہل بلدان (شہر والوں) کے لیے ہیں۔
«مِمَّنْ أرَادَ الْحَجَّ وَالْعُمَرَةَ» جو حج اور عمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے ہ جو شخص حج اور عمرے کی نیت سے نہ ہو وہ احرام کے بغیر مکہ مکرمہ میں داخل ہو سکتا ہے۔
«وَمَنْ كَانَ دُونَ ذٰلِك» اور جو اس (احرام والی جگہ) کے اندر ہو، یعنی جو میقات اور مکہ مکرمہ کے درمیان رہتا ہو تو وہ اسی جگہ سے احرام باندھے۔
«مَنْ حَيْثُ أَنْشَأَ» جہاں سے نکلا ہے یا جہاں سے سفر کا آغاز کیا ہے، یعنی اپنے گھر اور اپنی بستی ہی سے احرام باندھے۔
«حَتّٰي أهَلُ مَكَّةَ مِنْ مَّكَّةَ» یہاں تک کہ اہل مکہ، مکہ مکرمہ ہی سے احرام باندھیں۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اہل مکہ حج اور عمرے کا احرام مکہ مکرمہ سے باندھیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 590   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 832  
´آفاقی لوگوں کے لیے احرام باندھنے کی میقاتوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مشرق کی میقات عقیق ۱؎ مقرر کی۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 832]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ ایک معروف مقام ہے،
جو عراق کی میقات ذات العرق کے قریب ہے۔

نوٹ:
(سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف راوی ہے،
نیز محمد بن علی کا اپنے دادا ابن عباس سے سماع ثابت نہیں ہے،
اور حدیث میں وارد عقیق کا لفظ منکر ہے،
صحیح لفظ ذات عرق ہے،
الإرواء: 1002،
ضعیف سنن ابی داود: 306)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 832   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1740  
´میقات کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مشرق کے لیے عقیق کو میقات مقرر کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1740]
1740. اردو حاشیہ: اہل مشرق سےمراد مکہ سے مشرقی جانب کے علاقے ہیں یعنی عراق اور اس کے اطراف۔ اور عقیق نامی وادی ایک تو مدینہ کے قریب ہے دوسری یہی ہے جو ذات عرق کے قریب اور اس کے مقابل میں ہے اور یہاں یہی دورسری مراد ہے۔(مرعاۃ المفاتیح حدیث: 2554)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1740   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2803  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
توقیت کا معنی مقرر کرنا یا تعین وتحدید کرنا ہے اور شریعت نے حج کے لیے دوقسم کے میقات مقرر کیے ہیں۔

میقات زمانی:
وہ مہینے جن سے پہلے حج کے لیے احرام باندھنا بالاتفاق جائز نہیں ہے۔
شوال،
ذوالقعدہ اور ذوالحجہ ان کو اشہر الحج کہاجاتا ہے۔

میقات مکانی:
وہ مقامات جہاں سے حج اور عمرہ کے لیے احرام باندھے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا،
لیکن ان سے پہلے جمہور کے نزدیک احرام باندھنا جائز ہے امام اسحاق رحمۃ اللہ علیہ اور داود رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جائز نہیں بعض احناف وشوافع کے نزدیک یہ بہتر ہے اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ان سے پہلے احرام باندھنا مکروہ ہے اور یہ میقات بالاتفاق پانچ ہیں۔

ذوالحلیفہ:
۔
جو مکہ سے سب سے زیادہ دور میقات ہے اور مدینہ سے صرف دس کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے اور اب مدینہ کی آبادی یہاں تک پہنچ چکی ہے۔

حجفہ:
۔
جو بحرہ احمر سے دس کلومیٹر دور ہے اور بےآباد جگہ ہے اور وادی جموم کےراہ سے مکہ مکرمہ سے 186 کلومیٹر دور جگہ ہے اب لوگ رابغ جو ایک بہت بڑا شہر ہے سے احرام باندھتے ہیں۔
اہل لبنان،
اہل شام،
اردن،
فلسطین،
مصر،
سوڈان،
افریقہ کے لوگ یہیں سے احرام باندھتے ہیں۔

قرن منازل:
۔
جو مکہ مکرمہ سے سب سے قریبی میقات ہے اور تقریباً 30 میل کے فاصلہ پر ہے یا 45 کلومیٹر ہے۔

یلملم:
۔
جو مکہ مکرمہ کے جنوب میں تہامہ کی ایک پہاڑی ہے اور مکہ سے چالیس میل کے فاصلہ پر ہے۔

ذات عرق:
۔
مکہ معظمہ سے شمال مشرق میں عراق سے جانے والے راستہ پر 50 میل کے فاصلہ پر ہے۔
یہ پانچوں میقات ان علاقوں کے باشندوں کے لیے ہیں اوران کے علاوہ دوسرے تمام علاقوں کے ان لوگوں کے لیے ہیں جو حج اور عمرہ کے لیے ان سے گزریں اور جو لوگ ان سے دورسے گزریں،
وہ ان کے محاذات(مقابلہ)
میں جہاں سے گزرے ہیں،
احرام باندھیں اور جن لوگوں کا گھر،
میقات کے اندر واقعہ ہے ان کا میقات ان کا گھر ہی ہے حتی کہ اہل مکہ،
اپنے گھر ہی سے احرام باندھیں گے۔
جمہور کے نزدیک حج کے لیے جانے والا اگراحرام باندھے ان مقامات سے گزر جائے اور احرام باندھنے کے لیے واپس نہ آئے تو اس پر دم لازم ہے۔
اما ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تلبیہ کہتے ہوئے واپس آئے گا۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قریب ہو تو واپس آئے گا اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک واپس آنے کی صورت میں بھی دم دینا ہوگا۔
امام ابن حزم کے نزدیک احرام کے بغیر گزرنے والے کا حج نہیں ہو گا۔
جو لوگ میقات اورمکہ کے درمیان رہتے ہیں،
ان کے لیے اپنے گھر سے احرام باندھنا ضروری ہے تاخیر کی صورت میں دینا پڑے گا لیکن احناف کے نزدیک حرم سے پہلے پہلے احرام باندھنا کفایت کرجائےگا اس طرح اہل مکہ کے لیے مکہ سے احرام باندھنا لازم ہے،
لیکن احناف کے نزدک آخر حل تک تاخیر جائز ہے۔
اور یہ بات صریح حدیث کے خلاف ہے۔
اگرایک میقات تک مؤخر نہیں کرنا چاہیے۔
مثلاً شامی آدمی مدینہ آگیا ہے تو اسے ذوالحلیفہ سے احرام باندھنا ہوگا حجفہ تک مؤخر نہیں کرسکتا۔
اگرتاخیر کرے گا تو جمہور کےنزدیک گناہگار ہو گا اور دم پڑے گا،
اگرچہ بعض ائمہ کے نزدیک تاخیر خلاف افضل ہے،
لیکن جائز ہے اور اہل مکہ کوعمرہ کے لیے احرام کے لیے ائمہ اربعہ کے نزدیک حرم سے حل سے نکلنا ہوگا اور بقول علامہ سندھی امام بخاریل کے نزدیک حل میں نکلنے کی ضرورت نہیں ہے،
حج اورعمرہ دونوں کے لیے میقات مکہ ہی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2803