صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
3. باب التَّلْبِيَةِ وَصِفَتِهَا وَوَقْتِهَا:
باب: تلبیہ کے طریقے اور اس کے وقت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2814
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: فَإِنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَخْبَرَنِي، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهِلُّ مُلَبِّدًا، يَقُولُ: " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ "، لَا يَزِيدُ عَلَى هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ، وَإِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، كَانَ يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْكَعُ بِذِي الْحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ النَّاقَةُ قَائِمَةً عِنْدَ مَسْجِدِ ذِي الْحُلَيْفَةِ أَهَلَّ بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ، وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُهِلُّ بِإِهْلَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ وَيَقُولُ: لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ، وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ لَبَّيْكَ، وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ.
ابن شہاب نے کہا: بلا شبہ سالم بن عبد اللہ بن عمر نے مجھے اپنے والد (ابن عمر رضی اللہ عنہ) سے خبر دی انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں تلبیہ پکا رتے سنا کہ آپ کے بال جڑے (گوندیا خطمی بو ٹی وغیرہ کے ذریعے سے باہم چپکے) ہو ئے تھے آپ کہہ رہے تھے۔ لَبَّیْکَ اللَّہُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لاَ شَرِیکَ لَکَ لَبَّیْکَ، إِنَّ الْحَمْدَ، وَالنِّعْمَۃَ، لَکَ وَالْمُلْکَ، لاَ شَرِیکَ لَکَان کلما ت پر اضا فہ نہیں فرماتے تھے۔عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ میں دو رکعت نماز ادا کرتے پھر جب آپ کی اونٹنی مسجد ذوالحلیفہ کے پاس آپ کو لے کر کھڑی ہو جا تی تو آپ ان کلما ت سے تلبیہ پکا رتے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ عمر بن خطا ب رضی اللہ عنہ ان کلما ت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا تلبیہ پکا رتے تھے اور (ساتھ یہ) کہتے:: لبیک اللہم لبیک لبیک لبیک وسعدیک، والخیر بیدیک، والرغباء إلیک والعمل": " میں با ر بار حاضر ہوں، اے اللہ!میں تیرے سامنے حاضر ہوں حاضر ہوں تیری طرف سے سعادتوں کا طلب گا ر ہوں ہر قسم کی بھلا ئی تیرے دو نوں ہاتھوں میں ہے اے اللہ!میں تیرے حضور حاضر ہوں۔ہر دم تجھی سے مانگنے کی رغبت ہے اور ہر عمل تیری رضا کے لیے ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلبیہ کہتے ہوئے اس حال میں سنا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بال (گوند وغیرہ) سے جمے ہوئے تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے، میں تیرے حضور حاضر ہوں، اے اللہ! میں تیرے حضور حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی ساجھی نہیں، میں حاضر ہوں، تمام تعریفات و ستائیش، سب نعمتیں اور بادشاہی تیرے ہی لیے ہیں، تیرا کوئی شریک نہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات پر اضافہ نہیں فرماتے تھے اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ میں دو رکعت نماز پڑھتے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی، مسجد ذوالحلیفہ کے پاس آپصلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر سیدھی کھڑی ہو گئی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کے ساتھ تلبیہ کہا اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تلبیہ کے کلمات سے تلبیہ کہتے تھے اور (بعد میں) کہتے: میں تیرے سامنے حاضر ہوں، اے اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں اور تیری اطاعت کی سعادت کے لیے حاضر ہوں، ساری خیر تیرے ہاتھوں میں ہے، میں حاضر ہوں، رغبت تیری طرف ہے اور عمل تیرے ہی لیے ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 321  
´تلبیہ کے کلمات`
«. . . 221- وبه: أن تلبية رسول الله صلى الله عليه وسلم: لبيك اللهم لبيك لبيك، لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك، لا شريك لك قال نافع: وكان عبد الله بن عمر يزيد فيها: لبيك لبيك، لبيك وسعديك، والخير بيديك، لبيك والرغباء إليك والعمل. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ یہ لبیک کہتے تھے: «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ» اے اللہ! میں حاضر ہوں، اے میرے اللہ! میں حاضر ہوں، حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، حاضر ہوں، حمد و ثنا اور نعمت تیرے لئے ہی ہے اور ملک میں تیرا کوئی شریک نہیں۔ نافع (تابعی) فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس میں یہ اضافہ کرتے تھے: «لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ بِيَدَيْكَ لَبَّيْكَ، وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ» حاضر ہوں، حاضر ہوں، حاضر ہوں اور خیر تیرے ہاتھ میں ہے، حاضر ہوں اور (میری) رغبت تجھی سے ہے اور (میرا) عمل تیرے ہی لئے ہی ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 321]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1549، ومسلم 1184، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ عند الضرورت اجتہاد کرنا جائز ہے بشرطیکہ نص (کتاب و سننت و اجماع) کے خلاف نہ ہو۔
➋ ایسی دعا اور دم جس میں شرکیہ الفاظ یا مبالغہ نہ ہو، جائز ہے لیکن اسے سنت نہیں سمجھا جائے گا۔ تاہم بہتر یہی ہے کہ مسنون اذکار وادعیہ کو اختیار کیا جائے۔
➌ لوگوں نے جب لبیک میں اضافہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سننے کے باوجود ان کا کوئی رد نہیں کیا۔ [سنن ابي داؤد: 1813، وسنده صحيح وصححه ابن خزيمه: 2626]
تاہم بہتر یہی ہے کہ وہی الفاظ کہے جائیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 221   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2918  
´لبیک پکارنا۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے تلبیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا، آپ فرماتے تھے: «لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك» حاضر ہوں، اے اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، حمد و ثنا، نعمتیں اور فرماں روائی تیری ہی ہے، تیرا (ان میں) کوئی شریک نہیں۔‏‏‏‏ راوی کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اس میں یہ اضافہ کرتے: «لبيك لبيك لبيك وسعديك والخير في يديك لبيك والرغباء إليك والعمل» حاضر ہوں، اے اللہ! تیری خدمت میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، نیک بختی حاصل کرتا ہوں، خی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2918]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  تلبیہ حج کے عظیم مظاہرے میں سے ہے جس سے اللہ کی محبت اس کی لگن اور اس کے لیے ہر قسم کی مشکلات برداشت کرنے کے عزم کا اظہار ہوتا ہے،
(2)
نماز کے بعد سواری پر سوار ہوتے وقت اور بلندی پر چڑھتے وقت لبیک کا اہتمام زیادہ ہونا چاہیے۔

(3)
تمام مسلمانوں کا بیک وقت لبیک کہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کے سامنے سب برابر ہیں سب اللہ کی رضا کے طالب ہیں رنگ نسل زبان اور علاقے کے امتیازات اسلام کے عالمی تعارف کے مقابلے میں سب ہیچ ہیں۔

(4)
اس میں بھی یہ سبق ہے کہ عام زندگی میں مسلمانوں کو اس طرح اتحاد واتفاق سے کام لینا چاہیے اور کسی مسلمان کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔

(5)
تلبیہ میں توحید کا بار بار اقرار دل میں عقیدہ توحید کو پختہ کرنے کے لیے ہے۔

(6)
تلبیہ کے مختلف الفاظ مروی ہیں۔
ان میں سے جو الفاظ چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔
اور یہ بھی درست ہے کہ کبھی ایک روایت کے مطابق تلبیہ پڑھا جائے اور کبھی دوسری حدیث کے مطابق۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2918   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 825  
´تلبیہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ یہ تھا «لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك» حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں، حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔ سب تعریف اور نعمت تیری ہی ہے اور سلطنت بھی، تیرا کوئی شریک نہیں۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 825]
اردو حاشہ:
1؎:
جابر بن عبداللہ کی ایک روایت میں ہے کہ لوگ نبی اکرم ﷺ کے تلبیہ میں اپنی طرف سے ((ذَا الْمَعَارِج)) اور اس جیسے کلمات بڑھاتے اور نبی اکرم ﷺ سنتے تھے لیکن کچھ نہ فرماتے تھے،
اس سے معلوم ہوا کہ اس طرح کا اضافہ جائز ہے،
اگر جائز نہ ہوتا تو آپ منع فرما دیتے،
آپ کی خاموشی تلبیہ کے مخصوص الفاظ پر اضافے کے جواز کی دلیل ہے،
ابن عمر رضی اللہ عنہا کا یہ اضافہ بھی اسی قبیل سے ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 825   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2814  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ کی اقتداء میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تلبیہ پر کچھ کلمات کا اضافہ کرتے تھے اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد ذوالحلیفہ میں دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد،
وہیں اپنی ناقہ پرسوار ہو کر جب ناقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کرسیدھی کھڑی ہوئی تلبیہ کہا گویا اس وقت سے آپﷺ محرم ہوئے،
اصل حقیقت ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2814