صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ -- کتاب: علم کے بیان میں
25. بَابُ تَحْرِيضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ عَلَى أَنْ يَحْفَظُوا الإِيمَانَ وَالْعِلْمَ وَيُخْبِرُوا مَنْ وَرَاءَهُمْ:
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبیلہ عبدالقیس کے وفد کو اس پر آمادہ کرنا کہ وہ ایمان لائیں اور علم کی باتیں یاد رکھیں اور اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو بھی خبر کر دیں۔
وَقَالَ مَالِكُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ قَالَ لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ، فَعَلِّمُوهُمْ» .
‏‏‏‏ اور مالک بن الحویرث نے فرمایا کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر انہیں (دین) علم سکھاؤ۔
حدیث نمبر: 87
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، قَالَ: كُنْتُ أُتَرْجِمُ بَيْنَ ابْنِ عَبَّاسٍ وَبَيْنَ النَّاسِ، فَقَالَ: إِنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَنِ الْوَفْدُ أَوْ مَنِ الْقَوْمُ، قَالُوا: رَبِيعَةُ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ أَوْ بِالْوَفْدِ غَيْرَ خَزَايَا وَلَا نَدَامَى، قَالُوا: إِنَّا نَأْتِيكَ مِنْ شُقَّةٍ بَعِيدَةٍ وَبَيْنَنَا وَبَيْنَكَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ، وَلَا نَسْتَطِيعُ أَنْ نَأْتِيَكَ إِلَّا فِي شَهْرٍ حَرَامٍ، فَمُرْنَا بِأَمْرٍ نُخْبِرُ بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا نَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ،" فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ، أَمَرَهُمْ بِالْإِيمَانِ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَحْدَهُ، قَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَا الْإِيمَانُ بِاللَّهِ وَحْدَهُ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامُ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ، وَتُعْطُوا الْخُمُسَ مِنَ الْمَغْنَمِ، وَنَهَاهُمْ عَنِ الدُّبَّاءِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ. قَالَ شُعْبَةُ: رُبَّمَا قَالَ النَّقِيرِ، وَرُبَّمَا قَالَ الْمُقَيَّرِ، قَالَ: احْفَظُوهُ وَأَخْبِرُوهُ مَنْ وَرَاءَكُمْ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے غندر نے، ان سے شعبہ نے ابوجمرہ کے واسطے سے بیان کیا کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما اور لوگوں کے درمیان ترجمانی کے فرائض انجام دیتا تھا (ایک مرتبہ) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کون سا وفد ہے؟ یا یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ربیعہ خاندان (کے لوگ ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مبارک ہو قوم کو (آنا) یا مبارک ہو اس وفد کو (جو کبھی) نہ رسوا ہو نہ شرمندہ ہو (اس کے بعد) انہوں نے عرض کیا کہ ہم ایک دور دراز کونے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ہیں اور ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا یہ قبیلہ (پڑتا) ہے (اس کے خوف کی وجہ سے) ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ اور ایام میں نہیں آ سکتے۔ اس لیے ہمیں کوئی ایسی (قطعی) بات بتلا دیجیئے کہ جس کی ہم اپنے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو خبر دے دیں۔ (اور) اس کی وجہ سے ہم جنت میں داخل ہو سکیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چار باتوں کا حکم دیا اور چار سے روک دیا۔ اول انہیں حکم دیا کہ ایک اللہ پر ایمان لائیں۔ (پھر) فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ ایک اللہ پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ایک اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ) اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا اور ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور یہ کہ تم مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرو اور چار چیزوں سے منع فرمایا، دباء، حنتم، اور مزفت کے استعمال سے۔ اور (چوتھی چیز کے بارے میں) شعبہ کہتے ہیں کہ ابوجمرہ بسا اوقات «نقير» کہتے تھے اور بسا اوقات «مقير‏» ۔ (اس کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان (باتوں کو) یاد رکھو اور اپنے پیچھے (رہ جانے) والوں کو بھی ان کی خبر کر دو۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 53  
´مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرنا بھی ایمان سے ہے`
«. . . فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چار باتوں کا حکم دیا اور چار قسم کے برتنوں کو استعمال میں لانے سے منع فرمایا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 53]

تشریح:
یہاں بھی مرجیہ کی تردید مقصود ہے۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ومذهب السلف فى الايمان من كون الاعمال داخلة فى حقيقته فانه قد فسرالاسلام فى حديث جبرئيل بما فسربه الايمان فى قصة وفدعبدالقيس فدل هذا على ان الاشياءالمذكورة وفيها اداءالخمس من اجزاءالايمان وانه لا بدفي الايمان من الاعمال خلافا للمرجئة۔» [مرعاة، جلد اول، ص: 45]
یعنی سلف کا مذہب یہی ہے کہ اعمال ایمان کی حقیقت میں داخل ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث جبرئیل علیہ السلام (مذکورہ سابقہ) میں اسلام کی جو تفسیر بیان فرمائی وہی تفسیر آپ نے وفد عبدالقیس کے سامنے ایمان کی فرمائی۔ پس یہ دلیل ہے کہ اشیاء مذکورہ جن میں مال غنیمت سے خمس ادا کرنا بھی ہے یہ سب اجزاء ایمان سے ہیں اور یہ کہ ایمان کے لیے اعمال کا ہونا لابدی ہے۔ مرجیہ اس کے خلاف ہیں۔ (جو ان کی ضلالت و جہالت کی دلیل ہے)۔

جن برتنوں کے استعمال سے آپ نے منع فرمایا ان میں عرب کے لوگ شراب رکھا کرتے تھے۔ جب پینا حرام قرار پایا تو چند روز تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برتنوں کے استعمال کی بھی ممانعت فرما دی۔

یادرکھنے کے قابل:
یہاں حضرت مولانامبارک پوری رحمہ اللہ نے ایک یاد رکھنے کے قابل بات فرمائی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
«قال الحافظ وفيه دليل على تقدم اسلام عبدالقيس على قبائل الذين كانوا بينهم وبين المدينة ويدل على سبقهم الي الاسلام ايضا مارواه البخاري فى الجمعة عن ابن عباس قال ان اول جمعة جمعت بعدجمعة فى مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم فى مسجد عبدالقيس بجواثي من البحرين وانما جمعوا بعدرجوع وفدهم اليهم فدل على انهم سبقوا جميع القريٰ الي الاسلام انتهي واحفظه فانه ينفعك فى مسئلة الجمعة فى القريٰ۔» [مرعاة، جلد: اول، ص: 44]
یعنی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا کہ اس حدیث میں دلیل ہے کہ عبدالقیس کا قبیلہ مضر سے پہلے اسلام قبول کر چکا تھا جو ان کے اور مدینہ کے بیچ میں سکونت پذیر تھے۔ اسلام میں ان کی سبقت پر بخاری کی وہ حدیث بھی دلیل ہے جو نماز جمعہ کے بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ مسجد نبوی میں اقامت جمعہ کے بعد پہلا جمعہ جواثی نامی گاؤں میں جو بحرین میں واقع تھا، عبدالقیس کی مسجد میں قائم کیا گیا۔ یہ جمعہ انہوں نے مدینہ سے واپسی کے بعد قائم کیا تھا۔ پس ثابت ہوا کہ وہ دیہات میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ہیں۔ اسے یاد رکھو یہ گاؤں میں جمعہ ادا ہونے کے ثبوت میں تم کو نفع دے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 53   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 87  
´علم کی باتیں یاد کرنا اور دوسروں کو بتانا`
«. . . قَالَ: احْفَظُوهُ وَأَخْبِرُوهُ مَنْ وَرَاءَكُمْ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان (باتوں کو) یاد رکھو اور اپنے پیچھے (رہ جانے) والوں کو بھی ان کی خبر کر دو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 87]

تشریح:
نوٹ: یہ حدیث کتاب الایمان کے اخیر میں گزر چکی ہے۔ حضرت امام نے اس سے ثابت فرمایا ہے کہ استاد اپنے شاگردوں کو تحصیل علم کے لیے ترغیب و تحریص سے کام لے سکتا ہے۔ مزید تفصیل وہاں دیکھی جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 87   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 87  
87. حضرت ابوجمرہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت ابن عباس ؓ اور لوگوں کے درمیان ترجمانی کے فرائض انجام دیتا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی ﷺ کی خدمت میں آیا تو آپ نے فرمایا: کون سا وفد ہے یا یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: ربیعہ خاندان سے۔ آپ نے قوم یا وفد کو کہا: خوش آمدید، نہ رسوا ہوئے اور نہ ندامت ہی کی کوئی بات ہے۔ انہوں نے عرض کیا: ہم بہت دور دراز کی مسافت سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔ ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا یہ قبیلہ حائل ہے، اس لیے ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ کسی اور مہینے میں آپ کے پاس نہیں آ سکتے، لہذا آپ ہمیں کوئی ایسا کام بتا دیجیے کہ ہم اپنے پیچھے والوں کو اس سے مطلع کر دیں اور اس کے سبب ہم جنت میں داخل ہو جائیں۔ آپ نے انہیں چار چیزوں کا حکم دیا اور چار چیزوں سے منع فرمایا۔ آپ نے انہیں ایک اللہ پر ایمان لانے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:87]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کتاب الإیمان کے اخیر میں گزر چکی ہے۔
حضرت امام نے اس سے ثابت فرمایا ہے کہ استاد اپنے شاگردوں کو تحصیل علم کے لیے ترغیب وتحریص سے کام لے سکتا ہے۔
مزید تفصیل وہاں دیکھی جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 87   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 17  
´وفد عبدالقیس کو ایمانیات کی تعلیم`
«. . . وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: إِنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ لَمَّا أَتَوُا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنِ الْقَوْمُ؟ أَوْ: مَنِ الْوَفْدُ؟ " قَالُوا: رَبِيعَةُ. قَالَ: " مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ أَوْ: بِالْوَفْدِ غَيْرَ خَزَايَا وَلَا نَدَامَى ". قَالُوا: يَا رَسُول الله إِنَّا لَا نستطيع أَن نَأْتِيَكَ إِلَّا فِي الشَّهْرِ الْحَرَامِ وَبَيْنَنَا وَبَيْنَكَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ فَمُرْنَا بِأَمْرٍ فصل نخبر بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا وَنَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ وَسَأَلُوهُ عَنِ الْأَشْرِبَةِ. فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ: - [13] - أَمَرَهُمْ بِالْإِيمَانِ بِاللَّهِ وَحْدَهُ قَالَ: «أَتَدْرُونَ مَا الْإِيمَانُ بِاللَّهِ وَحْدَهُ؟» قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَصِيَامِ رَمَضَانَ وَأَنْ تُعْطُوا مِنَ الْمَغْنَمِ الْخُمُسَ» ‏‏‏‏وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ: عَنِ الْحَنْتَمِ وَالدُّبَّاءِ وَالنَّقِيرِ وَالْمُزَفَّتِ وَقَالَ: «احْفَظُوهُنَّ وَأَخْبِرُوا بِهِنَّ مَنْ وَرَاءَكُمْ» وَلَفظه للْبُخَارِيّ ‏‏‏‏ . . .»
. . . سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ جب قبیلہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ یہ وفد کس قبیلے کا ہے یا کس قوم کا ہے؟ (اس میں راوی حدیث کا شبہہ ہے کہ آپ نے لفظ «قوم» فرمایا یا لفظ «قبيله» فرمایا) انہوں نے کہا: ہم ربیعہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرحبا اور خوش آمدید فرمایا، اس وفد یا قوم کو مبارک ہو، نہ دنیا میں ذلت و رسوائی ہو اور نہ آخرت میں شرمندگی نصیب ہو (یہ ان کے حق میں دعائے خیر اور بشارت ہے) ان لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! (ہم دور دراز مسافت طے کر کے آئے ہیں) صرف عزت و احترام والے مہینے میں آ سکتے ہیں جن میں جنگ حرام ہے (دیگر مہینوں میں نہیں آ سکتے اس لیے کہ ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا قبیلہ حائل ہے جب غیر محرم کے مہینے میں حاضر ہوں گے تو مضر والے جنگ کریں گے اس لیے ہم انہیں مہینوں میں حاضر ہو سکتے ہیں جن میں کافروں کے نزدیک بھی لڑائی حرام ہے) اس لیے آپ کوئی ایسی فیصل بات بتا دیجیے کہ جو لوگ پیچھے رہ گئے ہیں انہیں جا کر بتائیں اور ہم خود بھی اس پر عمل کر کے جنت میں داخل ہونے کے لائق ہو جائیں۔ اور اسی کے ساتھ ہی ان لوگوں نے ان برتنوں کی بابت بھی دریافت کیا جن میں پہلے نبیذ بنائی جاتی تھی کہ اب ان برتنوں کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چار باتوں کا حکم دیا اور چار باتوں سے منع فرمایا: انہیں اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا حکم دیا کہ تم صرف ایک اللہ پر ایمان لاؤ۔ (یہ کہہ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جانتے ہو اللہ تعالیٰ پر ایمان کس طرح ہوتا ہے؟ (یا اللہ پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟) ان لوگوں نے عرض کیا کہ اس کو اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ پر ایمان لانا اس طرح ہوتا ہے کہ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے وہی عبادت کے لائق ہے، اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا اور یہ کہ مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ (بیت المال) کو دینا۔ اور ان چار برتنوں کے استعمال سے منع فرمایا۔ «حنتم» یعنی لاکھی ٹھلیا یا لاکھی مرتبان سے، «اَلدُّبَا» یعنی کدو کے تونبے سے، «نقير» یعنی لکڑی کے بنے ہوئے برتن سے، اور «مزفت» یعنی روغن دار رال کے برتن سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان باتوں کو یاد کر لو اور جو تمہارے پیچھے رہ گئے ہیں ان کو جاکر بتا دو۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 17]

تخریج الحدیث:
[صحیح بخاری 53]،
[صحيح مسلم 115،116]

فقہ الحدیث
➊ حصول علم اور جنت میں جانے کا جذبہ کس قدر صادق ہے کہ ہر قسم کی آزمائش کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میلوں کا سفر طے کیا، اسی طرح معرفت حق کے بعد دوسرے تک پہنچانے کا جذبہ بھی لائق تحسین ہے۔ سبحان اللہ
➋ اس حدیث میں واضح ثبوت ہے کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز، زکوٰۃ، روزوں اور مال غنیمت کی ادائیگی کو ایمان میں سے قرار دیا ہے۔ اس فرمان نبوی کے سراسر برعکس گمراہ فرقہ مرجیہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اعمال ایمان سے خارج ہیں۔!!
➌ سلام و کلام کے بعد مہمانوں کو خوش آمدید کہنا صحیح ہے۔ نیز شبہات سے بچنے میں ہی احتیاط ہے۔
➍ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث یاد کر کے دوسرے لوگوں تک پہنچانا جنت میں داخلے کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ اس حدیث سے محدثین کرام کی زبردست فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
➎ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں تین باتوں سے منع کیا تھا، اب میں تمہیں ان کے بارے میں حکم دیتا ہوں، میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا، اب ان کی زیارت کو چلے جایا کرو، یقیناً ان کی زیارت میں عبرت اور نصیحت ہے۔ میں نے تمہیں چمڑے کے برتنوں کے علاوہ کئی برتنوں میں پینے سے روکا تھا، تو (اب) ہر قسم کے برتنوں میں پی سکتے ہو لیکن کوئی نشہ آور چیز مت پیو۔ میں نے تمہیں قربانی کا گوشت تین دن کے بعد استعمال کرنے سے روکا تھا، اب اسے کھا سکتے ہو اور اپنے سفروں میں اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ [صحيح مسلم: 977، سنن ابي داود: 3298وللفظ له]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا حدیث میں جو ممانعت وارد ہوئی ہے وہ منسوخ ہے۔ واللہ اعلم
➏ بعض اوقات مومن کمزور بھی ہو سکتا ہے، مگر اسے ہر حال میں کتاب و سنت پر ڈٹا رہنا چاہیے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 17   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2611  
´ایمان میں دوسرے فرائض و واجبات کے داخل ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عبدقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، انہوں نے آپ سے عرض کیا: (اے اللہ کے رسول!) ہمارے اور آپ کے درمیان ربیعہ کا یہ قبیلہ حائل ہے، حرمت والے مہینوں کے علاوہ مہینوں میں ہم آپ کے پاس آ نہیں سکتے ۱؎ اس لیے آپ ہمیں کسی ایسی چیز کا حکم دیں جسے ہم آپ سے لے لیں اور جو ہمارے پیچھے ہیں انہیں بھی ہم اس کی طرف بلا سکیں، آپ نے فرمایا: میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں (۱) اللہ پر ایمان لانے کا، پھر آپ نے ان سے اس کی تفسیر و تشریح بیان کی «لا إلہ الا اللہ» اور «محمد رسول ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2611]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
حرمت والے مہینے چار ہیں:
رجب،
ذی قعدہ،
ذی الحجہ اور محرم،
چونکہ زمانہ جاہلیت میں ان مہینوں کو چھوڑ کر باقی دوسرے مہینوں میں جنگ و جدال جاری رہتا تھا،
اسی لیے قبیلۂ عبدقیس کے وفد کے لوگوں نے آپ ﷺ سے دوسرے مہینوں میں آپ تک نہ پہنچ سکنے کی معذرت کی اور آپﷺ سے دین کی اہم اور بنیادی باتیں پوچھیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2611   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3692  
´شراب میں استعمال ہونے والے برتنوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عبدالقیس کا وفد آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ بنو ربیعہ کا ایک قبیلہ ہیں، ہمارے اور آپ کے درمیان مضر کے کفار حائل ہیں، ہم آپ تک حرمت والے مہینوں ۱؎ ہی میں پہنچ سکتے ہیں، اس لیے آپ ہمیں کچھ ایسی چیزوں کا حکم دے دیجئیے کہ جن پر ہم خود عمل کرتے رہیں اور ان لوگوں کو بھی ان پر عمل کے لیے کہیں جو اس وفد کے ساتھ نہیں آئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں، اور چار چیزوں سے منع کرتا ہوں (جن کا حکم دیتا ہوں وہ یہ ہیں ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأشربة /حدیث: 3692]
فوائد ومسائل:

حق کی معرفت لازمی طور پر اس بات کا تقاضا کرتی ہے۔
کہ انسان اس پر کاربند ہو اور دوسروں کو اس کی دعوت دے اور یہی فطرت سلیمہ ہے۔
جیسے کہ ان لوگوں نے اپنی ابتدائی گفتگو میں از خود اس کا اظہار کیا۔


دین واحکام کچھ احکام اور کچھ نواہی پر مشتمل ہے جس کی پاسداری کے بغیر اسلام اور دین مکمل نہیں ہوسکتا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3692   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:87  
87. حضرت ابوجمرہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت ابن عباس ؓ اور لوگوں کے درمیان ترجمانی کے فرائض انجام دیتا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی ﷺ کی خدمت میں آیا تو آپ نے فرمایا: کون سا وفد ہے یا یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: ربیعہ خاندان سے۔ آپ نے قوم یا وفد کو کہا: خوش آمدید، نہ رسوا ہوئے اور نہ ندامت ہی کی کوئی بات ہے۔ انہوں نے عرض کیا: ہم بہت دور دراز کی مسافت سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔ ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا یہ قبیلہ حائل ہے، اس لیے ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ کسی اور مہینے میں آپ کے پاس نہیں آ سکتے، لہذا آپ ہمیں کوئی ایسا کام بتا دیجیے کہ ہم اپنے پیچھے والوں کو اس سے مطلع کر دیں اور اس کے سبب ہم جنت میں داخل ہو جائیں۔ آپ نے انہیں چار چیزوں کا حکم دیا اور چار چیزوں سے منع فرمایا۔ آپ نے انہیں ایک اللہ پر ایمان لانے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:87]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کامقصد یہ ہے کہ تعلیم کو اپنی ذات کی حد تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اسے دوسروں تک پہنچانا چاہیے۔
اس مقصد کے لیے انھوں نے دو حدیثیں بیان فرمائی ہیں:
ایک حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے موصولاً بھی بیان کیا ہے۔
وہ فرماتے ہیں:
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تقریباً بیس دن تک آپ کے ہاں قیام کیا جب ہم نے کہا ہم گھر جاناچاہتے ہیں تو آپ نے فرمایا:
جاؤ،اپنے گھر والوں کونماز کی تعلیم دو، نیزاس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 631)
دوسری حدیث وفد عبدالقیس والی ہے جس کی تفصیلات پہلے بھی حدیث: 53 کے تحت گزر چکی ہیں۔
آپ نے مامورات اور منہیات کی تعلیم دینے کے بعد فرمایا کہ ایمان کی باتوں کو اچھی طرح یاد رکھیں اور انھیں اپنے پس ماندگان تک پہنچا دیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب سازی کے چار برتنوں کے استعمال سے انھیں منع فرمایا جس کی تفصیل یہ ہے:
دباء:
کدو سے تیارکردہ پیالے۔
حنتم:
بڑے بڑے مٹکے۔
مزفت:
تارکول سے رنگے ہوئے روغنی برتن۔
نقیر:
لکڑی سے تراشے ہوئے لگن۔
حدیث میں تین برتنوں کا ذکر ہوا ہے، اس لیے شعبہ کا بیان ہے کہ ابو جمرہ کبھی کبھی ان کے ساتھ نقیر کا بھی ذکر کرتے تھے۔
مزید وضاحت فرمائی کہ ابوجمرہ کبھی لفظ مزفت استعمال کرتے اور کبھی اس کے بجائے مقیر کہتے۔
دونوں کے معنی میں کوئی فرق نہیں۔
ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دونوں الفاظ ترک کردیے ہوں۔
ایسا صرف نقیر میں ہوا کہ کبھی اس کا ذکر نہیں کیا۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تبلیغ کے لیے پورا عالم دین ہونا ضروری نہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کو تبلیغ کا حکم دیا تھا وہ تمام دینی باتوں سے واقف نہ تھے بلکہ انھیں صرف چار باتوں کا حکم دیا تھا اور چار ہی باتوں سےمنع کیا تھا۔
ایک حدیث میں تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے۔
خواہ وہ ایک قرآنی آیت ہی ہو۔
اس سے شبہ ہوتا ہے کہ شاید آیات قرآنی ہی کی تبلیغ مقصود ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مؤقف کی تردید کی اور فرمایا کہ ہر چیز کی تبلیغ کرو، خواہ قرآنی آیت ہو یا حدیث نبوی۔

واضح رہے کہ جن برتنوں کے استعمال کےمتعلق یہاں پابندی کا ذکر ہے، اسے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم کر دیا تھا۔
(صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5207(977)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 87