صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
8. باب تَحْرِيمِ الصَّيْدِ الْمَأُكُولِ الْبَرِّيِّ ، وَمَا أَصْلُهُ ذٰلِكَ عَلَي الْمُحْرِمِ بِحَجُ أَوُ عمْرَةٍ أَوْ بِهِمَا
باب: حج یا عمرہ یا ان دونوں کا احرام باندھنے والے پر خشکی کا شکار کرنے کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2854
وحَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ مِسْمَارٍ السُّلَمِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي قَتَادَةَ ، قَالَ: انْطَلَقَ أَبِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ، فَأَحْرَمَ أَصْحَابُهُ وَلَمْ يُحْرِمْ، وَحُدِّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ عَدُوًّا بِغَيْقَةَ فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَبَيْنَمَا أَنَا مَعَ أَصْحَابِهِ يَضْحَكُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، إِذْ نَظَرْتُ فَإِذَا أَنَا بِحِمَارِ وَحْشٍ فَحَمَلْتُ عَلَيْهِ فَطَعَنْتُهُ فَأَثْبَتُّهُ، فَاسْتَعَنْتُهُمْ فَأَبَوْا أَنْ يُعِينُونِي، فَأَكَلْنَا مِنْ لَحْمِهِ وَخَشِينَا أَنْ نُقْتَطَعَ، فَانْطَلَقْتُ أَطْلُبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرْفَعُ فَرَسِي شَأْوًا وَأَسِيرُ شَأْوًا، فَلَقِيتُ رَجُلًا مِنْ بَنِي غِفَارٍ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ، فَقُلْتُ: أَيْنَ لَقِيتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: تَرَكْتُهُ بِتَعْهِنَ وَهُوَ قَائِلٌ السُّقْيَا، فَلَحِقْتُهُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَصْحَابَكَ يَقْرَءُونَ عَلَيْكَ السَّلَامَ وَرَحْمَةَ اللَّهِ، وَإِنَّهُمْ قَدْ خَشُوا أَنْ يُقْتَطَعُوا دُونَكَ، انْتَظِرْهُمْ فَانْتَظَرَهُمْ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَصَدْتُ وَمَعِي مِنْهُ فَاضِلَةٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْقَوْمِ: " كُلُوا "، وَهُمْ مُحْرِمُونَ.
یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت ہے انھوں نے کہا:) مجھ سے عبد اللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہا: میرے والد حدیبیہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہو ئے ان کے ساتھیوں نے (عمرے) کا احرام باندھا لیکن انھوں نے نہ باندھا۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا یا گیا کہ غیقہ مقام پر دشمن (گھا ت میں) ہے (مگر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چل پڑے۔ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ہمرا ہ تھا وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ہنس رہے تھے۔اتنے میں میں نے دیکھا تو میری نظر زیبرے پر پڑی میں نے اس پر حملہ کر دیا اور اسے نیزہ مار کر بے حرکت کر دیا پھر میں نے ان سے مدد چا ہی تو انھوں نے میری مدد کرنے سے انکا ر کر دیا۔ پھر ہم نے اس کا گو شت تناول کیا۔ اور ہمیں اندیشہ ہوا کہ ہم (آپ سے) کاٹ (کر الگ کر) دیے جا ئیں گے۔ تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلا ش میں روانہ ہوا کبھی میں گھوڑے کو بہت تیز تیز دوڑاتا تو کبھی (آرام سے) چلا تا آدھی را ت کے وقت مجھے بنو غفار کا ایک شخص ملا میں نے اس سے پو چھا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ں ملے تھے؟ اس نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تعہن کے مقام پر چھورا ہے آپ فر ما رہے تھے سُقیا (پہنچو) چنانچہ میں آپ سے جا ملا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول!!آپ کے صحابہ کرا م رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ کو سلام عرض کرتے ہیں اور انھیں ڈر ہے کہ انھیں آپ سے کا ٹ (کر الگ کر) دیا جا ئے گا۔ آپ ان کا انتظار فر ما لیجیے۔تو آپ نے (وہاں) انکا انتظار فرمایا۔ پھر میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول!!میں نے شکار کیا تھا اور اس کا بچا ہوا کچھ (حصہ) میرے پاس باقی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا۔"کھا لو" جبکہ وہ سب احرا م کی حا لت میں تھے۔
حضرت عبداللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حدیبیہ والے سال میرے باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے، ان کے ساتھیوں نے احرام باندھا اور انہوں نے احرام نہ باندھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ دشمن غیقہ نامی جگہ میں گھات میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہو گئے، ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں اس دوران میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ تھا، وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس رہے تھے، ناگہاں میں نے دیکھا تو میری نظر ایک جنگلی گدھے پر پڑی، میں نے اس پر حملہ کر دیا اور اسے نیزہ مار کر، اسے حرکت کرنے سے روک دیا، میں نے ان سے مدد مانگی، انہوں نے میری مدد کرنے سے انکار کر دیا، ہم نے اس کا گوشت کھایا اور ہمیں خطرہ محسوس ہوا، ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ کر دیا جائے گا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلا، کبھی گھوڑے کو دوڑاتا اور کبھی آہستہ چلتا تو آدھی رات میں بنو غفار کے ایک آدمی کو ملا، میں نے پوچھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تیری ملاقات کہاں ہوئی تھی؟ اس نے جواب دیا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تَهِن نامی چشمہ پر چھوڑا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سُقيا مقام پر جا کر قیلولہ فرمائیں گے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جا ملا اور میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام اور رحمت بھیجتے ہیں اور انہیں خطرہ ہے کہ کہیں دشمن انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ نہ کر ڈالے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا انتظار فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا انتظار فرمایا، میں نے پوچھا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے شکار کیا ہے اور میرے پاس اس کا کچھ بچا ہوا ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا: اسے کھا لو۔ حالانکہ وہ سب محرم تھے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2854  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ مکرمہ کی طرف روانگی کے بعد،
اہل مدینہ کو پتہ چلا کہ دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھات میں ہے۔
اس لیے حضرت اس لیے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بھیجا گیا کہ وہ جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دیں کہ دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنا چاہتا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مقام روحاء سے پہلے جا ملا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک جماعت کے ساتھ دشمن کی خبر گیری کے لیے ساحل سمندر کی طرف بھیج دیا چونکہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ عمرہ کی نیت سے نہیں نکلے تھے اس لیے وہ غیر محرم تھے اور باقی ساتھی محرم تھے وہ دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقام قاحہ میں جا ملے۔
وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صدقہ کی وصولی کے لیے بھیجا پھر وہ واپس آ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ساتھیوں سے جو پیچھے رہ گئے آ ملے اور یہ شکار کا معاملہ پیش آ گیا شکار کے سلسلہ میں ساتھیوں نے ان کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کیا تھا اس لیے انہوں نے اپنے لیے شکار کیا بعد میں ساتھیوں کو کھانے کی دعوت دی بعض نے قبول کرلی اوربعض نے رد کردی،
کیونکہ وہ سمجھتے تھے محرم کے لیے شکار کرنا جائز نہیں ہے تو شاید کھانا بھی جائز نہ ہو،
بعد میں یہ معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کی اجازت مرحمت فرمائی اور ان کے اطمینان وتشفی کے لیے فرمایا اگرکچھ بقایا ہے تو ہمیں بھی پیش کروجیسا کہ آگے آ رہا ہے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تناول فرمایا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2854