صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
8. باب تَحْرِيمِ الصَّيْدِ الْمَأُكُولِ الْبَرِّيِّ ، وَمَا أَصْلُهُ ذٰلِكَ عَلَي الْمُحْرِمِ بِحَجُ أَوُ عمْرَةٍ أَوْ بِهِمَا
باب: حج یا عمرہ یا ان دونوں کا احرام باندھنے والے پر خشکی کا شکار کرنے کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2856
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . ح وحَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ شَيْبَانَ جَمِيعًا، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ فِي رِوَايَةِ شَيْبَانَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمِنْكُمْ أَحَدٌ أَمَرَهُ أَنْ يَحْمِلَ عَلَيْهَا أَوْ أَشَارَ إِلَيْهَا؟ "، وَفِي رِوَايَةِ شُعْبَةَ: قَالَ: " أَشَرْتُمْ أَوْ أَعَنْتُمْ أَوْ أَصَدْتُمْ "، قَالَ شُعْبَةُ: لَا أَدْرِي، قَالَ: أَعَنْتُمْ أَوْ أَصَدْتُمْ.
شعبہ اور شیبان دو نوں نے عثمان بن عبد اللہ بن مو ہب سے اسی سند کے ساتھ روایت کی۔ شیبان کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم میں سے کسی نے ان سے کہا تھا کہ وہ اس پر حملہ کریں یا اس کی طرف اشارہ کیا تھا؟ شعبہ کی روایت میں ہے کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: کیا تم لوگوں نے اشارہ کیا یا مدد کی شکار کرا یا؟ شعبہ نے کہا: میں نہیں جا نتا کہ آپ نے کہا: تم لوگوں نے مدد کی" یا کہا: "تم لو گوں نے شکار کرا یا۔
امام صاحب یہی روایت دو اور اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، شیبان کی روایت میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم میں سے کسی نے اس کو ان پر حملہ کرنے کا مشورہ دیا تھا یا اس کی طرف اشارہ کیا تھا؟،، شعبہ کی روایت میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم نے اشارہ کیا، یا مدد کی، یا شکار کیا؟ (شکار کا مشورہ دیا) شعبہ کہتے ہیں، مجھے پتہ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اَعَنتُم (تم نے مدد کی) کہا یا اَصَدتُم، تم نے شکار کیا کہا۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2856  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

روایت نمبر60 میں(حَاجًا)
کا لفظ آیا ہے۔
حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کے لیے نکلے تھے جیسا کہ دوسری روایت میں صراحت موجود ہے اس لیے(حَاجًا)
اپنے لغوی معنی میں ہوگا۔
یعنی بیت اللہ کے قصد اور ارادہ سے نکلے حج کا یہاں اصطلاحی مفہوم مراد نہیں ہے یا بقول امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ یہ لفظ راوی کا وہم ہے۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ سے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تھے،
لیکن اس کے باوجود کچھ ساتھیوں نے میقات سے احرام نہیں باندھا تھا۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کے مطابق اس میں کوئی اشکال نہیں ہے کیونکہ ان کے نزدیک اگرکوئی انسان مکہ مکرمہ حج اور عمرہ کے ارادہ سے نہیں جاتا تو اس کے لیے احرام باندھنا ضروری نہیں ہے لیکن باقی تینوں ائمہ کےنظریہ کے مطابق اس میں اشکال پیش آتا ہے کیونکہ ان کے نزدیک کوئی آدمی میقات سے احرام باندھے بغیر مکہ مکرمہ نہیں جاسکتا۔
اس لیے یہاں تاویل کی ضرورت ہے دوسری روایات کی روشنی میں معنی گویا ابوقتادہ رحمۃ اللہ علیہ کے سوا سب نے پہلے سے احرام باندھا ہوا تھا یہ نہیں ہے کہ انہوں نے اب جب ساحل سمندر سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملے تو احرام باندھ لیا۔
ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے احرام نہ باندھنے کی وجہ اوپربیان ہوچکی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2856