صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
10. باب جَوَازِ حَلْقِ الرَّأْسِ لِلْمُحْرِمِ إِذَا كَانَ بِهِ أَذًى وَوُجُوبِ الْفِدْيَةِ لِحَلْقِهِ وَبَيَانِ قَدْرِهَا:
باب: تکلیف لاحق ہونے کی صورت میں محرم کو سر منڈانے کی اجازت اور اس پر فدیہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 2879
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: فِيَّ أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ سورة البقرة آية 196، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ، فَقَالَ:" ادْنُهْ فَدَنَوْتُ"، فَقَالَ:" ادْنُهْ فَدَنَوْتُ"، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُؤْذِيكَ هَوَامُّكَ؟"، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: وَأَظُنُّهُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَأَمَرَنِي بِفِدْيَةٍ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ مَا تَيَسَّرَ".
ابن عون نے مجا ہد سے انھوں نے عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے انھوں نے کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا: یہ آیت میرے بارے میں نا زل ہوئی: پھر اگر تم میں سے کوئی شخص بیمار ہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو (اور وہ سر منڈوالے) تو فدیے میں روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے۔کہا میں آپ کی خدمت میں حا ضر ہوا آپ نے فرمایا: " ذرا قریب آؤ۔میں آپ کے (کچھ) قیریب ہو گیا آپ نے فرمایا: " اور قریب آؤ۔تو میں آپ کے اور قریب ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پو چھا: کیا تمھا ری جو ئیں تمھیں ایذا دیتی ہیں؟ ابن عون نے کہا: میرا خیال ہے کہ انھوں (کعب رضی اللہ عنہ) نے کہا جی ہاں (کعب رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو آپ نے مجھے حکم دیا کے روزے صدقے یا قر بانی میں سے جو آسان ہو بطور فدیہ دوں۔
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت مبارکہ: میرے بارے میں اتری ہے تو تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو اور وہ سر منڈا لے تو وہ فدیہ کے طور پر روزہ رکھے یا صدقہ کرے، یا قربانی کرے۔ (آیت نمبر 196، سورۃ البقرۃ) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریب ہو جا۔ میں قریب ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریب ہو جا، میں قریب ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا جوئیں تجھے تکلیف پہنچا رہی ہیں؟ ابن عون کہتے ہیں، میرے خیال میں کعب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا، ہاں۔ کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بطور فدیہ حکم دیا کہ روزے، صدقہ اور قربانی میں سے جو آسان ہو اس پر عمل کرو۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 335  
´حالت اضطراری میں وقت سے پہلے سر منڈانے پر کفارہ`
«. . . 397- مالك عن عبد الكريم بن مالك الجزري عن مجاهد عن عبد الرحمن بن أبى ليلى عن كعب بن عجرة أنه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فآذاه القمل فى رأسه، فأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يحلق رأسه وقال: صم ثلاثة أيام، أو أطعم ستة مساكين مدين مدين لكل إنسان، أو انسك بشاة، أى ذلك فعلت أجزأ عنك. . . .»
. . . سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ (حج کے دوران میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو انہیں (کعب رضی اللہ عنہ کو) سر میں جوئیں تکلیف دے رہی تھیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ سر منڈوالو اور فرمایا: تین دن روزے رکھو یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ ہر انسان کو دو دو مد یا ایک بکری کی قربانی دو، ان میں سے جو بھی کرو گے وہ تمہاری طرف سے کافی ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 335]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه ابوداود 1861، من حديث مالك به مختصراً ورواه البخاري 1815، ومسلم 1201، من حديث مجاهد عن عبدالرحمٰن بن ابي ليليٰ به]

تفقه:
➊ ایک مُد چوتھائی صاع کو کہتے ہیں۔
➋ اگر حالتِ احرام میں کسی بیماری کی وجہ سے سر منڈوانا پڑے تو اس کے کفارے میں تین روزے رکھنا ہوں گے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا یا پھر ایک بکری کا ذبح کر کے حرم کے مساکین میں تقسیم کرنا ہو گا۔
➌ احرام کے علاوہ ہر وقت سر منڈانا جائز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچہ دیکھا جس کے سر کے بالوں کا بعض حصہ مونڈا ہوا تھا اور بعض چھوڑا گیا تھا تو آپ نے فرمایا: «احلقوہ کله أو اترکوہ کله۔» اس کا سارا سر منڈوا دو یا سارا چھوڑ دو۔ [سنن ابي داود: 4195 وسنده صحيح]
● یہ حدیث سب لوگوں کے لئے عام ہے لیکن عورتوں کی تخصیص دوسری صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ عورتوں کے لئے سر منڈانا منع ہے۔ دیکھئے [سنن ابي داود 1985، وسنده حسن وحسنه الحافظ ابن حجر رحمه الله فى التلخيص الحبير 2/261 ح1058]
➍ سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ نے مدینے میں قربانی کی اور اپنا سر مونڈا یعنی منڈوایا۔ [مصنف ابن ابي شيبه 237/3 ح13888، وسنده صحيح] نیز دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو: 27ص 46
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 397   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3080  
´محصور کے فدیہ کا بیان۔`
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جس وقت جوؤں نے مجھے پریشان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنا سر منڈوا ڈالوں، اور تین دن روزے رکھوں، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ میرے پاس قربانی کے لیے کچھ نہیں ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3080]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
احرام کی حالت میں سر منڈوانا اور بال کاٹنا منع ہے۔

(2)
اگر کسی عذر کی وجہ سے وہ کام کرنا پڑے جو احرام کی حالت میں جائز نہیں تو فدیہ دینا پڑے ہوگا۔

(3)
فدیہ ایک بکری ہے۔
اگر یہ ممکن نہ ہوتو تین روزے رکھ لیے جائیں یا چھ مسکینوں کو آدھا آدھا صاع غلہ دےدیا جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3080   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 603  
´احرام اور اس کے متعلقہ امور کا بیان`
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اٹھا کر لایا گیا اور جوئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا یہ خیال نہ تھا کہ تم کو بیماری نے اس حالت کو پہنچا دیا ہو گا جو میں دیکھ رہا ہوں، کیا تیرے پاس بکری ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین دن روزہ رکھ یا چھ مسکینوں کو آدھا صاع ہر مسکین کے حساب سے کھانا دے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 603]
603 لغوی تشریح:
«حُمَلْتُ» صیغۂ مجہول ہے، یعنی مجھے اٹھا کر لایا گیا۔
«الْقَمْلُ» قاف پر زبر اور میم ساکن ہے۔ چھوٹے چھوٹے حشرات جنہیں جویٔں کہتے ہیں۔
«يَتَناثَرُ» یعنی کثرت کی وجہ سے وہ سر سے میرے منہ پر گر رہی تھیں اور حضرت کعب رضی اللہ عنہ انہیں مارتے نہیں تھے کیونکہ وہ محرم تھے۔
«مَا كُنْتُ أُرٰي»، «أُرٰي» کے ہمزہ پر پیش ہے۔ صیغۂ مجہول ہے یعنی مجھے گمان نہ تھا۔
«الْوَجَعَ» تکلیف۔
«مَاأَرٰي» ہمزہ پر زبر۔ رؤیت بصری سے مشتق ہے، یعنی جو میں دیکھ رہا ہوں۔
«أَتَجِدُ شَاة» یعنی حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی یہ حالت دیکھ کر آپ نے انہیں سر منڈوانے کا حکم دیا اور اس کے کفارے کے طور پر ایک بکری ذبح کرنے یا تین دن روزے رکھنے کا یا چھ مساکین کو کھانا کھلانے کا حکم دیا۔ ان تینوں میں سے کوئی کام بھی کیا جا سکتا یے کیونکہ آپ نے اختیار دیا تھا۔

راویٔ حدیث:
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ، عجرہ میں عین پر پیش اور جیم ساکن ہے۔ یہ جلیل القدر صحابی قبیلہ بلي سے تعلق رکھتے تھے جو انصار کا حلیف تھا، کوفہ چلے گئے تھے۔ بلآخر مدینہ طیبہ میں 51 ھجری میں 75 سال کی عمر میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 603   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2973  
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
مجاہد کہتے ہیں کہ کعب بن عجرہ رضی الله عنہ نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ آیت: «فمن كان منكم مريضا أو به أذى من رأسه ففدية من صيام أو صدقة أو نسك» البتہ تم میں سے جو بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (جس کی وجہ سے سر منڈا لے) تو اس پر فدیہ ہے، خواہ روزے رکھ لے، خواہ صدقہ دے، خواہ قربانی کرے (البقرہ: ۱۹۶)، میرے بارے میں اتری ہم حدیبیہ میں تھے، احرام باندھے ہوئے تھے، مشرکوں نے ہمیں روک رکھا تھا، میرے بال کانوں کے لو کے برابر تھے، سر کے جوئیں چہرے پر گرنے لگیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہمارے پاس ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2973]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
 البتہ تم میں سے جو بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (جس کی وجہ سے سر منڈا لے) تو اس پر فدیہ ہے،
خواہ روزے رکھ لے،
خواہ صدقہ دے،
خواہ قربانی کرے (البقرۃ: 196) 2؎:
دوسری حدیث میں صراحت آ گئی ہے کہ تین صاع چھ مسکین کو کھلائے یعنی فی مسکین آدھا صاع (جو بھی کھانا وہاں کھایا جاتا ہو)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2973   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1856  
´محرم کے فدیہ کا بیان۔`
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے زمانے میں ان کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں تمہارے سر کی جوؤں نے ایذا دی ہے؟ کہا: ہاں، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سر منڈوا دو، پھر ایک بکری ذبح کرو، یا تین دن کے روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کو تین صاع کھجور کھلاؤ ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1856]
1856. اردو حاشیہ:
➊ اعمال حج میں کیس تقصیر پرمشروع قربانی صدقہ یا روزہ رکھنا فدیہ کہلاتا ہے۔بمعنی عوض یا بدل
➋ ایک صاع چار مد کا ہوتا ہے۔اور ایک مد تقریباً 9 چھٹانک کا۔تین صاع چھ مسکینوں پر تقسیم کریں گے۔تو ہر مسکین کو دو مد (18چھٹا نک) ملیں گے۔ پس یہی فدیے کا حساب ہوا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1856   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2879  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
هَوَام:
هامة کی جمع ہے،
ہر زہریلی چیز کو کہتے ہیں اور اس کا اطلاق کیڑے مکوڑوں پر بھی ہوجاتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2879