صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
10. باب جَوَازِ حَلْقِ الرَّأْسِ لِلْمُحْرِمِ إِذَا كَانَ بِهِ أَذًى وَوُجُوبِ الْفِدْيَةِ لِحَلْقِهِ وَبَيَانِ قَدْرِهَا:
باب: تکلیف لاحق ہونے کی صورت میں محرم کو سر منڈانے کی اجازت اور اس پر فدیہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 2884
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ زَكَرِيَّاءَ بْنِ أَبِي زَائِدَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَصْبَهَانِيِّ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَعْقِلٍ ، حَدَّثَنِي كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْرِمًا، فَقَمِلَ رَأْسُهُ وَلِحْيَتُهُ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَدَعَا الْحَلَّاقَ فَحَلَقَ رَأْسَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ:" هَلْ عِنْدَكَ نُسُكٌ؟"، قَالَ: مَا أَقْدِرُ عَلَيْهِ،" فَأَمَرَهُ أَنْ يَصُومَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، أَوْ يُطْعِمَ سِتَّةَ مَسَاكِينَ، لِكُلِّ مِسْكِينَيْنِ صَاعٌ"، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهِ خَاصَّةً فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ سورة البقرة آية 196 ثُمَّ كَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً.
زکریا بن ابی زائد ہ سے روایت ہے کہا: ہمیں عبدالرحٰمن بن اصبہانی نے حدیث بیان کی انھوں نے کہا مجھے عبد اللہ بن معقل نے انھوں نے کہا: مجھے کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث سنا ئیکہ وہ احرا م باندھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے ان کے سر اور داڑھی میں (کثرت سے) جو ئیں پڑ گئیں۔اس (بات) کی خبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے انھیں بلا بھیجا اور ھجا م کو بلا کر ان کا سر مونڈ دیا پھر ان سے پو چھا: " کیا تمھا رے پاس کوئی قربانی ہے؟ انھوں نے جواب دیا: (اے اللہ کے رسول) میں اس کی استطاعت نہیں رکھتا آپ نے انھیں حکم دیا: تین دن کے روزے عکھ لو یا چھ مسکینوں کو کھا نا مہیا کر دو مسکینو ں کے لیے ایک صاعہو اللہ عزوجل نے خاص ان کے بارے میں یہ آیت نازل فر ما ئی: " جو شخص تم میں سے مریض ہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو، اس کے بعد یہ (اجازت) عمومی طور پر تمام مسلمانوں کے لیے ہے۔
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ احرام باندھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور ان کے سر اور داڑھی میں کثرت سے جوئیں پڑ گئیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر پہنچ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف پیغام بھیجا اور ایک سر مونڈنے والے کو بلوایا، اس نے اس کا سر مونڈ دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: کیا تجھ میں قربانی کی استطاعت ہے؟ کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، مجھ میں اتنی استطاعت نہیں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا: تین روزے رکھ لو، یا چھ مساکین کو کھانا دے دو، ہر دو مسکینوں کو ایک صاع، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت خاص طور پر اس کے بارے میں اتاری کہ تم میں سے جو بیمار ہے یا اس کے سر میں تکلیف ہو۔ لیکن اس کا حکم تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 335  
´حالت اضطراری میں وقت سے پہلے سر منڈانے پر کفارہ`
«. . . 397- مالك عن عبد الكريم بن مالك الجزري عن مجاهد عن عبد الرحمن بن أبى ليلى عن كعب بن عجرة أنه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فآذاه القمل فى رأسه، فأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يحلق رأسه وقال: صم ثلاثة أيام، أو أطعم ستة مساكين مدين مدين لكل إنسان، أو انسك بشاة، أى ذلك فعلت أجزأ عنك. . . .»
. . . سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ (حج کے دوران میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو انہیں (کعب رضی اللہ عنہ کو) سر میں جوئیں تکلیف دے رہی تھیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ سر منڈوالو اور فرمایا: تین دن روزے رکھو یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ ہر انسان کو دو دو مد یا ایک بکری کی قربانی دو، ان میں سے جو بھی کرو گے وہ تمہاری طرف سے کافی ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 335]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه ابوداود 1861، من حديث مالك به مختصراً ورواه البخاري 1815، ومسلم 1201، من حديث مجاهد عن عبدالرحمٰن بن ابي ليليٰ به]

تفقه:
➊ ایک مُد چوتھائی صاع کو کہتے ہیں۔
➋ اگر حالتِ احرام میں کسی بیماری کی وجہ سے سر منڈوانا پڑے تو اس کے کفارے میں تین روزے رکھنا ہوں گے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا یا پھر ایک بکری کا ذبح کر کے حرم کے مساکین میں تقسیم کرنا ہو گا۔
➌ احرام کے علاوہ ہر وقت سر منڈانا جائز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچہ دیکھا جس کے سر کے بالوں کا بعض حصہ مونڈا ہوا تھا اور بعض چھوڑا گیا تھا تو آپ نے فرمایا: «احلقوہ کله أو اترکوہ کله۔» اس کا سارا سر منڈوا دو یا سارا چھوڑ دو۔ [سنن ابي داود: 4195 وسنده صحيح]
● یہ حدیث سب لوگوں کے لئے عام ہے لیکن عورتوں کی تخصیص دوسری صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ عورتوں کے لئے سر منڈانا منع ہے۔ دیکھئے [سنن ابي داود 1985، وسنده حسن وحسنه الحافظ ابن حجر رحمه الله فى التلخيص الحبير 2/261 ح1058]
➍ سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ نے مدینے میں قربانی کی اور اپنا سر مونڈا یعنی منڈوایا۔ [مصنف ابن ابي شيبه 237/3 ح13888، وسنده صحيح] نیز دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو: 27ص 46
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 397   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3080  
´محصور کے فدیہ کا بیان۔`
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جس وقت جوؤں نے مجھے پریشان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنا سر منڈوا ڈالوں، اور تین دن روزے رکھوں، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ میرے پاس قربانی کے لیے کچھ نہیں ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3080]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
احرام کی حالت میں سر منڈوانا اور بال کاٹنا منع ہے۔

(2)
اگر کسی عذر کی وجہ سے وہ کام کرنا پڑے جو احرام کی حالت میں جائز نہیں تو فدیہ دینا پڑے ہوگا۔

(3)
فدیہ ایک بکری ہے۔
اگر یہ ممکن نہ ہوتو تین روزے رکھ لیے جائیں یا چھ مسکینوں کو آدھا آدھا صاع غلہ دےدیا جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3080   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 603  
´احرام اور اس کے متعلقہ امور کا بیان`
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اٹھا کر لایا گیا اور جوئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا یہ خیال نہ تھا کہ تم کو بیماری نے اس حالت کو پہنچا دیا ہو گا جو میں دیکھ رہا ہوں، کیا تیرے پاس بکری ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین دن روزہ رکھ یا چھ مسکینوں کو آدھا صاع ہر مسکین کے حساب سے کھانا دے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 603]
603 لغوی تشریح:
«حُمَلْتُ» صیغۂ مجہول ہے، یعنی مجھے اٹھا کر لایا گیا۔
«الْقَمْلُ» قاف پر زبر اور میم ساکن ہے۔ چھوٹے چھوٹے حشرات جنہیں جویٔں کہتے ہیں۔
«يَتَناثَرُ» یعنی کثرت کی وجہ سے وہ سر سے میرے منہ پر گر رہی تھیں اور حضرت کعب رضی اللہ عنہ انہیں مارتے نہیں تھے کیونکہ وہ محرم تھے۔
«مَا كُنْتُ أُرٰي»، «أُرٰي» کے ہمزہ پر پیش ہے۔ صیغۂ مجہول ہے یعنی مجھے گمان نہ تھا۔
«الْوَجَعَ» تکلیف۔
«مَاأَرٰي» ہمزہ پر زبر۔ رؤیت بصری سے مشتق ہے، یعنی جو میں دیکھ رہا ہوں۔
«أَتَجِدُ شَاة» یعنی حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی یہ حالت دیکھ کر آپ نے انہیں سر منڈوانے کا حکم دیا اور اس کے کفارے کے طور پر ایک بکری ذبح کرنے یا تین دن روزے رکھنے کا یا چھ مساکین کو کھانا کھلانے کا حکم دیا۔ ان تینوں میں سے کوئی کام بھی کیا جا سکتا یے کیونکہ آپ نے اختیار دیا تھا۔

راویٔ حدیث:
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ، عجرہ میں عین پر پیش اور جیم ساکن ہے۔ یہ جلیل القدر صحابی قبیلہ بلي سے تعلق رکھتے تھے جو انصار کا حلیف تھا، کوفہ چلے گئے تھے۔ بلآخر مدینہ طیبہ میں 51 ھجری میں 75 سال کی عمر میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 603   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2973  
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
مجاہد کہتے ہیں کہ کعب بن عجرہ رضی الله عنہ نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ آیت: «فمن كان منكم مريضا أو به أذى من رأسه ففدية من صيام أو صدقة أو نسك» البتہ تم میں سے جو بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (جس کی وجہ سے سر منڈا لے) تو اس پر فدیہ ہے، خواہ روزے رکھ لے، خواہ صدقہ دے، خواہ قربانی کرے (البقرہ: ۱۹۶)، میرے بارے میں اتری ہم حدیبیہ میں تھے، احرام باندھے ہوئے تھے، مشرکوں نے ہمیں روک رکھا تھا، میرے بال کانوں کے لو کے برابر تھے، سر کے جوئیں چہرے پر گرنے لگیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہمارے پاس ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2973]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
 البتہ تم میں سے جو بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (جس کی وجہ سے سر منڈا لے) تو اس پر فدیہ ہے،
خواہ روزے رکھ لے،
خواہ صدقہ دے،
خواہ قربانی کرے (البقرۃ: 196) 2؎:
دوسری حدیث میں صراحت آ گئی ہے کہ تین صاع چھ مسکین کو کھلائے یعنی فی مسکین آدھا صاع (جو بھی کھانا وہاں کھایا جاتا ہو)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2973   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1856  
´محرم کے فدیہ کا بیان۔`
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے زمانے میں ان کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں تمہارے سر کی جوؤں نے ایذا دی ہے؟ کہا: ہاں، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سر منڈوا دو، پھر ایک بکری ذبح کرو، یا تین دن کے روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کو تین صاع کھجور کھلاؤ ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1856]
1856. اردو حاشیہ:
➊ اعمال حج میں کیس تقصیر پرمشروع قربانی صدقہ یا روزہ رکھنا فدیہ کہلاتا ہے۔بمعنی عوض یا بدل
➋ ایک صاع چار مد کا ہوتا ہے۔اور ایک مد تقریباً 9 چھٹانک کا۔تین صاع چھ مسکینوں پر تقسیم کریں گے۔تو ہر مسکین کو دو مد (18چھٹا نک) ملیں گے۔ پس یہی فدیے کا حساب ہوا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1856   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2884  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

سفرحدیبیہ کے دوران حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے گزرے دیکھا کہ وہ ہنڈیا کے نیچے آگ جلارہے ہیں اور ان کےسر سے جوئیں ان کے چہرہ پر گررہی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے کھڑے پوری طرح جائزہ لیے بغیر ان سے پوچھا کہ کیا یہ جوئیں تیرے لیے تکلیف کا باعث بن رہی ہیں حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہاں میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتا دیا کہ سرمنڈوالو اور جو فدیہ سہولت وآسانی کے ساتھ میسر ہو دے دو،
یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے بعد میں کسی ساتھی نے حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تکلیف کی شدت کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلوا بھیجا تکلیف کی شدت کی بنا پر انہیں اٹھا کر لے جایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت قریب سے ان کا جائزہ لیا اور تکلیف کی شدت دیکھ کرفرمایا میں نے اس وقت جب تمھیں پہلے دیکھا تھا اس قدر تکلیف محسوس نہیں کی تھی۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوری سرمنڈوانے والے کو بلوا کر سرمنڈوایا اور انہیں کفارہ کی تلقین کی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے یہ حکم وحی خفی کے ذریعہ دیا تھا۔
بعد میں اس کی تائید میں قرآنی صورت میں وحی جلی کا نزول ہوا۔
لیکن اس میں کفارے کا بیان اجمالی انداز میں ہے اس کی تفصیل ووضاحت وحی خفی (حدیث)
میں موجود ہے جس سے ثابت ہوتا ہے قرآن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔
قرآن میں صرف روزوں اور صدقہ کا تذکرہ ہے لیکن کتنے روزے رکھے جائیں اور کتنی مقدار میں صدقہ ادا کیاجائے اس کی تفصیل اور وضاحت موجود نہیں ہے۔
اس طرح نسیکہ کی وضاحت نہیں،
ان چیزوں کی تفصیل اور تفسیر حدیث میں موجود ہے۔

اگر محرِم کوسر کی کسی تکلیف کی بنا پر سرمنڈوانے کی ضرورت پیش آ جائے تو بالاتفاق سرمنڈوا سکتا ہے اور اس کا اسے فدیہ ادا کرنا ہو گا کہ وہ تین روزے رکھ لے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے،
یعنی ہر مسکین کو آدھا صاع خوراک مہیا کرے یا بکری کی قربانی کرے۔
ائمہ ثلاثہ اما مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
احمد رحمۃ اللہ علیہ۔
اور محدثین رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ہر قسم کا غلہ و اناج نصف صاع ادا کرنا ہوگا۔
لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک گندم کا نصف صاع ہوگا اور باقی اجناس پورا صاع دینا ہوں گی،
حالانکہ حدیث میں کھجور کے تین صاع کی صراحت موجود ہے۔
یعنی ہر ایک مسکین کو آدھا صاع کھجور دی جائے اور ائمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ قربانی صدقے اورروزے میں ترتیب ضروری نہیں ہے کہ اگر قربانی نہ کرسکتا ہو تو پھر روزے رکھے روزے نہ رکھتا ہو تو پھر صدقہ کرے۔
بلکہ اختیار ہے تین کاموں میں سے جو چاہے کرلے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2884