صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
17. باب بَيَانِ وُجُوهِ الإِحْرَامِ وَأَنَّهُ يَجُوزُ إِفْرَادُ الْحَجِّ وَالتَّمَتُّعِ وَالْقِرَانِ وَجَوَازِ إِدْخَالِ الْحَجِّ عَلَى الْعُمْرَةِ وَمَتَى يَحِلُّ الْقَارِنُ مِنْ نُسُكِهِ:
باب: احرام کی اقسام کابیان، اور حج افراد، تمتع، اور قران تینوں جائز ہیں، اور حج کا عمرہ پر داخل کرنا جائز ہے، اور حج قارن والا اپنے حج سے کب حلال ہو جائے؟
حدیث نمبر: 2943
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي نَاسٍ مَعِي، قَالَ: أَهْلَلْنَا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ خَالِصًا وَحْدَهُ، قَالَ عَطَاءٌ قَالَ جَابِرٌ: فَقَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صُبْحَ رَابِعَةٍ مَضَتْ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، فَأَمَرَنَا أَنْ نَحِلَّ، قَالَ عَطَاءٌ: قَالَ " حِلُّوا وَأَصِيبُوا النِّسَاءَ "، قَالَ عَطَاءٌ: وَلَمْ يَعْزِمْ عَلَيْهِمْ وَلَكِنْ أَحَلَّهُنَّ لَهُمْ، فَقُلْنَا لَمَّا لَمْ يَكُنْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عَرَفَةَ إِلَّا خَمْسٌ، أَمَرَنَا أَنْ نُفْضِيَ إِلَى نِسَائِنَا، فَنَأْتِيَ عرَفَةَ تَقْطُرُ مَذَاكِيرُنَا الْمَنِيَّ، قَالَ: يَقُولُ جَابِرٌ: بِيَدِهِ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى قَوْلِهِ بِيَدِهِ يُحَرِّكُهَا، قَالَ: فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِينَا، فَقَالَ: " قَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي أَتْقَاكُمْ لِلَّهِ وَأَصْدَقُكُمْ وَأَبَرُّكُمْ وَلَوْلَا هَدْيِي لَحَلَلْتُ كَمَا تَحِلُّونَ، وَلَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ أَسُقْ الْهَدْيَ، فَحِلُّوا "، فَحَلَلْنَا وَسَمِعْنَا وَأَطَعْنَا، قَالَ عَطَاءٌ: قَالَ جَابِرٌ: فَقَدِمَ عَلِيٌّ مِنْ سِعَايَتِهِ، فَقَالَ: " بِمَ أَهْلَلْتَ؟ "، قَالَ: بِمَا أَهَلَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَأَهْدِ وَامْكُثْ حَرَامًا "، قَالَ: وَأَهْدَى لَهُ عَلِيٌّ هَدْيًا، فَقَالَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِعَامِنَا هَذَا أَمْ لِأَبَدٍ؟، فَقَالَ: " لِأَبَدٍ ".
ابن جریج نے کہا: مجھے عطا ء نے خبر دی کہ میں نے اپنے متعدد فقاء کے ساتھ جا بر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے (احرا م کے وقت) صرف اکیلے حج ہی کا تلبیہ پکا را۔عطا ء نے کہا: حضرت جا بر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چار ذوالحجہ کی صبح مکہ پہنچے تھے۔آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم حلال (احرا م کی پابندیوں سے فا رغ) ہو جا ئیں۔عطاء نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا تھا: " حلال ہو جاؤ اور اپنی عورتوں کے پاس جاؤ۔عطا ء نے کہا: (عورتوں کی قربت) آپ نے ان پر لا زم قرار نہیں دی تھی بلکہ بیویوں کو ان کے لیے صرف حلال قراردیا تھا۔ہم نے کہا: جب ہمارے اور یوم عرفہ کے درمیان محض پانچ دن باقی ہیں آپ نے ہمیں اپنی عورتوں کے پاس جا نے کی اجازت مرحمت فر ما دی ہے تو (یہ ایسا ہی ہے کہ) ہم (اس) عرفہ آئیں گے تو ہمارے اعضا ئے مخصوصہ سے منی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے۔عطاء نے کہا جابر رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ سے (ٹپکنے کا اشارہ کر رہے تھے۔ایسا لگتا ہے میں اب بھی ان کے حرکت کرتے ہاتھ کا اشارہ دیکھ رہا ہوں۔جا بر رضی اللہ عنہ نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ دینے کے لیے) ہم میں کھڑے ہو ئے اور فرمایا: "تم (اچھی طرح) جا نتے ہو کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا، تم سب سے زیادہ سچا اور تم سب سے زیادہ پارسا ہوں۔اگر میرے ساتھ قر بانی نہ ہو تی تو میں بھی ویسے حلال (احرا م سے فارغ) ہو جا تا جیسے تم حلال ہو ئے ہو، اگر وہ چیز پہلے میرے سامنے آجا تی جو بعد میں آئی تو میں قربانی اپنے ساتھ نہ لا تا، لہٰذا تم سب حلال (احرا م سے فارغ) ہو جاؤ۔چنانچہ پھر ہم حلال ہو گئے۔ہم نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو) سنا اور اطاعت کی۔عطاء نے کہا: حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: (اتنے میں) حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی ذمہ داری سے (عہد ہبر آہو کر) پہنچ گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان سے) پو چھا: (علی) تم نے کس (حج) کا تلبیہ پکا را تھا؟"انھوں نے جواب دیا: جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "قربانی کرو اور احرا م ہی کی حالت میں رہو۔ (جا بر رضی اللہ عنہ نے) بیان کیا: حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی اپنے ہمراہ قربانی (کے جا نور) لا ئے تھے۔سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا اے اللہ کے رسول!!یہ (حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا) صرف ہمارے اسی سال کے لیے (جا ئز ہوا) ہے یا ہمیشہ کے لیے؟آپ نے فرمایا: "ہمیشہ کے لیے۔
حضرت عطاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کچھ ساتھیوں کے ساتھ، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، انہوں نے بتایا کہ ہم نے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے، صرف خالص حج کا احرام باندھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چار ذوالحجہ کی صبح مکہ مکرمہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حلال ہونے کا حکم دیا، عطاء کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حلال ہو جاؤ اور اپنی بیویوں سے تعلقات قائم کرو۔ عطاء کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلقات قائم کرنا ان کے لیے ضروری قرار نہ دیا لیکن ان کے لیے انہیں جائز قرار دے دیا۔ ہم نے آپس میں کہا، جب ہمارے اور عرفہ کے درمیان صرف پانچ دن رہ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عورتوں کے پاس جانے کے لیے فرما دیا ہے تو ہم عرفہ جائیں گے اور ہمارے عضو مخصوص سے منی ٹپک رہی ہو گی، یعنی تھوڑا عرصہ پہلے ہم تعلقات قائم کر چکے ہوں گے، عطاء کہتے ہیں، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ہاتھ کو حرکت دے رہے تھے، گویا کہ میں آپ (جابر) کے ہاتھ کو حرکت دیتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں خطاب کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: تم خوب جانتے ہو، میں تم میں سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ سچا اور سب سے زیادہ اطاعت گزار ہوں اور اگر میرے پاس ہدی نہ ہوتی تو میں بھی تمہاری طرح حلال ہو جاتا۔ اگر مجھے پہلے اس چیز کا پتہ چل جاتا، جس کا بعد میں پتہ چلا ہے تو میں ہدی ساتھ نہ لاتا، اس لیے تم احرام کھول دو۔ تو ہم نے بات سنی اور اطاعت کرتے ہوئے احرام کھول دیا، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے فرائض سر انجام دے کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تو نے احرام کس نیت سے باندھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا، جس نیت سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: قربانی کیجئے اور محرم ٹھہریے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی ہدی لائے تھے، حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ ہمارے اس سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمیشہ کے لیے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1074  
´جب مسافر کسی مقام پر ٹھہرے تو کتنے دنوں تک قصر کر سکتا ہے؟`
عطاء کہتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے مجھ سے میرے ساتھ کئی لوگوں کی موجودگی میں حدیث بیان کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ چار ذی الحجہ کی صبح تشریف لائے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1074]
اردو حاشہ:
فائدہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کو صبح کے وقت مکہ مکرمہ تشریف فرما ہوئے۔
اور یہاں سے یوم الترویہ (8 ذوالحجہ)
کو منیٰ کی طرف روانہ ہوئے۔
اس میں یہ ارشاد ہے کہ چاردن ٹھرنے کی صورت میں بھی دوگانہ ادا کیاجا سکتا ہے۔
الغرض قصر نماز کےلئے دنوں کے تعین میں یہ روایت پہلی روایت سے زیادہ واضح اور فیصلہ کن ہے۔
واللہ أعلم تاہم دونوں ہی موقف صحیح ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1074   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1789  
´حج افراد کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام نے حج کا احرام باندھا ان میں سے اس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور طلحہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کے پاس ہدی کے جانور نہیں تھے اور علی رضی اللہ عنہ یمن سے ساتھ ہدی لے کر آئے تھے تو انہوں نے کہا: میں نے اسی کا احرام باندھا ہے جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ حج کو عمرہ میں بدل لیں یعنی وہ طواف کر لیں پھر بال کتروا لیں اور پھر احرام کھول دیں سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی ہو، تو لوگوں نے عرض کیا: کیا ہم منیٰ کو اس حال میں جائیں کہ ہمارے ذکر منی ٹپکا رہے ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا: اگر مجھے پہلے سے یہ معلوم ہوتا جو اب معلوم ہوا ہے تو میں ہدی نہ لاتا، اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1789]
1789. اردو حاشیہ:
➊ صحابہ کرام خوب سمجھتے تھے کہ دین و شریعت رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ا ور پیروی کانام ہے۔ اسی لیے حضرت علی نے احرام کی نیت میں یہ کہا کہ میرا احرام اور میری نیت وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی ہے۔
➋ اور دوسری بات (کہ ہم منی کو اس حالت میں جائیں ......)کہنے کی وجہ یہ تھی کہ عبادت چونکہ انسان سے زہد و رغبت الی اللہ کا تقاضا کرتی ہے اور اعمال حج شروع ہونےمیں دو دن باقی تھے تو انہیں کامل حلت کچھ عجیب سی لگی۔ نیز رسول اللہ ﷺ خود بھی تو حلال نہیں ہوئے تھے۔ او روہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کے شائق تھے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنی مجبوری کی وضاحت کرکے صحابہ کرام کا اشکال دور فرما دیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1789   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2943  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فعل سے معلوم ہوا کہ انسان مبہم نیت سے احرام باندھ سکتا ہے اور بعد میں تعیین کر سکتا ہے مثلاً جیسا کہ احرام میرے ساتھیوں نے باندھا ہے میرا احرام بھی اس کے مطابق ہے اور بعد میں ساتھیوں سے پوچھ کر تعیین کر لے گا۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سراقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو جواب دیا ہے،
اس سے معلوم ہوتا ہے حج کو فسخ کر کے عمرہ کی نیت کر لینا ہمیشہ کے لیے جائز ہے اور جمہور کے نزدیک جن میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ داخل ہیں اس کا مطلب یہ ہے حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کی اجازت ہمیشہ کے لئے ہے صرف اس سال کے ساتھ مخصوص نہیں ہے کیونکہ جمہور کے نزدیک اب حج کو فسخ کر کے عمرہ کرنا درست نہیں ہے جس نیت سے احرام باندھا تھا اس پر عمل کیا جائے گا لیکن امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
امام داؤد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اگر محرم ہدی ساتھ نہیں لایا تو پھر اس کے لیے حج تمتع کرنا لازم ہے اس لیے اس کو حج کا احرام عمرہ کا احرام بنانا پڑے گا حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اس پر (زاد المعاد ج2ص: 166تا212)
میں تفصیلی بحث کی ہے بعض حضرات نے اس کا معنی یہ لیا ہے کہ حج قران کی اجازت اس سال کے لیے ہے یا افعال عمرہ کو افعال حج میں داخل کرنا قیامت تک کے لیے ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2943