صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
23. باب جَوَازِ التَّمَتُّعِ:
باب: حج تمتع کا جواز۔
حدیث نمبر: 2972
وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، قَالَ: قَالَ لِي عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ : " إِنِّي لَأُحَدِّثُكَ بِالْحَدِيثِ الْيَوْمَ يَنْفَعُكَ اللَّهُ بِهِ بَعْدَ الْيَوْمِ، وَاعْلَمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْمَرَ طَائِفَةً مِنْ أَهْلِهِ فِي الْعَشْرِ، فَلَمْ تَنْزِلْ آيَةٌ تَنْسَخُ ذَلِكَ، وَلَمْ يَنْهَ عَنْهُ حَتَّى مَضَى لِوَجْهِهِ، ارْتَأَى كُلُّ امْرِئٍ بَعْدُ مَا شَاءَ أَنْ يَرْتَئِيَ "،
ہمیں اسماعیل بن ابراہیم نے حدیث بیا ن کی، (کہا:) ہمیں جریری نے حدیث سنائی، انھوں نے ابو العلاء سے، انھوں نے مطرف سے روایت کی، (مطرف نے) کہا: عمران بن حصین نے مجھ سے کہا: میں تمھیں آج ایک ایسی حدیث بیان کرنے لگاہوں جس سے اللہ تعالیٰ آج کے بعد تمھیں نفع دے گا۔جان لو! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں میں سے کچھ کو ذوالحجہ میں عمرہ کروایا، پھر نہ تو کوئی ایسی آیت نازل ہوئی جس نے اسے (حج کے مہینوںمیں عمرے کو) منسوخ قرار دیا ہو، اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی منزل کی طرف تشریف لے گئے۔بعد میں ہر شخص نے جورائے قائم کرنا چاہی کرلی۔
مطرف بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت عمران بن حصین رضی الله تعالیٰ عنہ نے کہا، میں تمہیں آج ایسی حدیث سناتا ہوں، جس سے تمہیں اللہ تعالیٰ آج کے بعد نفع پہنچائے گا، جان لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو عشرہ ذوالحجہ میں عمرہ کرنے کا حکم دیا، اور کسی آیت کے ذریعہ اس کو منسوخ قرار نہیں دیا گیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی وفات تک اس سے منع نہیں فرمایا، اس کے بعد جو انسان چاہے اپنی رائے سے کوئی رائے قائم کر لے (اس کا اعتبار نہیں ہے۔)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2978  
´حج تمتع کا بیان۔`
مطرف بن عبداللہ بن شخیر کہتے ہیں کہ مجھ سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے کہا: میں تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں، ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے آج کے بعد فائدہ پہنچائے، جان لو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں میں سے ایک جماعت نے ذی الحجہ کے دس دنوں میں عمرہ کیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منع نہیں کیا، اور نہ قرآن مجید میں اس کا نسخ اترا، اس کے بعد ایک شخص نے اپنی رائے سے جو چاہا کہا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2978]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  شاید آئندہ زندگی میں فائدہ ہو۔
یہ اس لیے فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حج تمتع پسند نہیں کرتے اس لیے ابھی مناسب نہیں کہ ان کی مخالفت کی جائے کیونکہ حج قران بھی جائز ہے البتہ بعد میں آپ حج تمتع کریں اور دوسروں کو بھی مسئلہ بتائیں کہ یہ جائز ہے۔

(2)
رسول اللہ ﷺ کے گھر کے افراد سے مراد ازواج مطہرات رضی اللہ عنہ ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
جب ہم لوگ (مکہ)
آئے ہم نے کعبہ کا طواف کیا (اور سعی کی)
تب نبی اکرم ﷺ نے حکم دیا کہ جو شخص قربانی لیکر نہیں آیا وہ احرام کھول دے۔
تو جو لوگ قربانی نہیں لائے تھے انھوں نے احرام کھول دیا۔ (صحيح البخاري، الحج، باب التمتع والقران والافراد بالحج۔
۔
۔
۔
۔
، حديث: 1561)

حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اور ان کے شوہر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے بھی حج تمتع کیا تھا۔ (صحيح البخاري، العمرة، باب متي يحل المعتمر، حديث: 794)

(3)
حج تمتع سے اجتناب کا فتوی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تھا۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا بھی یہی موقف تھا۔ (صحيح مسلم، الحج، باب في المتعة بالحج، حديث: 1217)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک روایت ہے کہ وہ منع کرتے تھے۔ (موطأ إمام مالك، الحج، باب القران في الحج: 1/ 203)
لیکن یہ حدیث ضعیف ہے۔
حج قران یا تمتع کو ناجائز نہیں سمجھتے تھے۔
بلکہ وہ کہتے تھے کہ عمرے کے لیے الگ سفر ہونا چاہیے تاکہ ایسا نہ ہوکہ سب لوگ حج کے ساتھ عمرہ کرکے چلے جائیں اور سال کے باقی حصے میں کعبہ شریف کی رونق قائم نہ رہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2978