صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
26. بَابُ جَوَازِ التَّحَلُّلِ بِالْإِحْصَارِ وَجَوَازِ الْقِرَانِ وَاقْتِصَارِ الْقَارِنِ عَلٰي طَوَافٍ وَاحِدٍ وَسَعْيِ وَاحِدٍ
باب: احصار کے وقت احرام کھولنے کا جواز، قران کا جواز اور قارن کے لئے ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کا جواز۔
حدیث نمبر: 2990
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ الْقَطَّانُ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، وَسَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، كَلَّمَا عَبْدَ اللَّهِ حِينَ نَزَلَ الْحَجَّاجُ لِقِتَالِ ابْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَا: لَا يَضُرُّكَ أَنْ لَا تَحُجَّ الْعَامَ، فَإِنَّا نَخْشَى أَنْ يَكُونَ بَيْنَ النَّاسِ قِتَالٌ، يُحَالُ بَيْنَكَ وَبَيْنَ الْبَيْتِ، قَالَ: فَإِنْ حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ فَعَلْتُ كَمَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ، حِينَ حَالَتْ كُفَّارُ قُرَيْشٍ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ عُمْرَةً، فَانْطَلَقَ حَتَّى أَتَى ذَا الْحُلَيْفَةِ فَلَبَّى بِالْعُمْرَةِ، ثُمَّ قَالَ: إِنْ خُلِّيَ سَبِيلِي قَضَيْتُ عُمْرَتِي، وَإِنْ حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ فَعَلْتُ كَمَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ، ثُمَّ تَلَا لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21 ثُمَّ سَارَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِظَهْرِ الْبَيْدَاءِ قَالَ: " مَا أَمْرُهُمَا إِلَّا وَاحِدٌ، إِنْ حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَ الْعُمْرَةِ، حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَ الْحَجِّ، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ حَجَّةً مَعَ عُمْرَةٍ "، فَانْطَلَقَ حَتَّى ابْتَاعَ بِقُدَيْدٍ هَدْيًا، ثُمَّ طَافَ لَهُمَا طَوَافًا وَاحِدًا بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ لَمْ يَحِلَّ مِنْهُمَا، حَتَّى حَلَّ مِنْهُمَا بِحَجَّةٍ يَوْمَ النَّحْرِ،
عبید اللہ سے روایت ہے کہا: مجھے نافع نے حدیث بیان کی کہ جس سال حجاج بن یوسف نے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے لرا ئی کرنے کے لیے مکہ میں پراؤ کیا تو عبد اللہ بن عبد اللہ اور سالم بن عبد اللہ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے گفتگو کی کہ اگر آپ اس سال حج نہ فرمائیں تو کوئی حرج نہیں ہمیں اندیشہ ہے کہ لوگوں (حجاج بنیوسف اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی فوجوں) کے درمیان جنگ ہو گی اور آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان رکاوٹ حائل ہو جا ئے گی (آپ بیت اللہ تک پہنچ نہیں پائیں گے) انھوں نے فرمایا: "اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ آگئی تو میں وہی کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا (اسموقع پر) میں بھی آپ کے ساتھ (شریک سفر) تھا جب قریش مکہ آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان حا ئل ہو گئے تھے میں تمھیں گواہ بنا تا ہوں کہ میں نے عمرے کی نیت کر لی ہے۔ (پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ) نکلے جب ذوالحلیفہ پہنچے تو عمرے کا تلبیہ پکارا پھر فرمایا: " اگر میرا راستہ خالی رہا تو میں اپنا عمرہ مکمل کروں گا اور اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ پیدا ہو گئی تو میں وہی کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا جب میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔پھر (ابن عمر رضی اللہ عنہ نے) یہ آیت تلاوت فرمائی۔"لَّقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَ‌سُولِ اللَّـہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ"یقیناً تمھا رے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے عمل) میں بہترین نمونہ ہے۔"پھر (حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ) چل پڑے جب مقام بیداء کی بلندی پر پہنچے تو فرمایا: "ان دونوں (حج و عمرہ) کا حکم ایک جیسا ہے۔اگر میرے اور عمرے کے درمیان کوئی رکاوٹ حائل ہو گئی تو (وہی رکا وٹ) میرے اور میرے حج کے درمیان حائل ہو گی۔میں تمھیں گواہ ٹھہراتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرے کے ساتھ حج بھی لا زم ٹھہرا لیا ہے آپ چلتے رہے حتی کہ مقام قدید آپ نے قربانی کے اونٹ خریدے پھر آپ نے ان دونوں (حج اور عمرے) کے لیے بیت اللہ اور احرا م باندھا تھا اسے نہ کھولا یہاں تک کہ قربانی کے دن حج (مکمل) کر کے دونوں کے احرا م سے فارغ ہو ئے۔
نافع بیان کرتے ہیں، جن دنون حجاج، حضرت ابن زبیر رضی الله تعالیٰ عنہ سے جنگ کے لیے مکہ پہنچا تھا، عبداللہ بن عبداللہ اور سالم بن عبداللہ نے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بات چیت کی، دونوں نے عرض کیا، اگر آپ اس سال حج نہ کریں، تو کوئی مضائقہ نہیں ہے، کیونکہ ہمیں اندیشہ ہے، لوگوں میں جنگ ہو گی، جو آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہو گی، تو انہوں نے جواب دیا، اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان رکاوٹ کھڑی ہوئی، تو میں ویسے ہی کروں گا، جیسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا، جبکہ قریش آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوئے تھے، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں، میں نے عمرہ کی نیت کر لی ہے، پھر وہ (مدینہ سے) چل پڑے جب ذوالحلیفہ پہنچے تو عمرہ کا تلبیہ کہا، پھر کہا، اگر میرا راستہ چھوڑ دیا گیا، تو میں اپنا عمرہ ادا کروں گا، اور اگر میرے اور عمرہ کے درمیان رکاوٹ کھڑی کر دی گئی تو ویسے کروں گا جیسا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا، پھر یہ آیت پڑھی: ﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہترین نمونہ ہیں۔) پھر چل پڑے، جب مقام بیداء کی پشت پر پہنچے، کہنے لگے دونوں (حج اور عمرہ) کا معاملہ یکساں ہی ہے، اگر میرے اور عمرہ کے درمیان رکاوٹ پیدا ہوئی، تو میرے اور حج کے درمیان بھی رکاوٹ پیدا ہو گی، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں، میں نے عمرہ کے ساتھ حج کو بھی لازم کر لیا ہے، پھر چل پڑے، حتی کہ مقام قُدَيد سے ہدی خرید لی، پھر دونوں کے لیے (حج اور عمرہ کے لیے) بیت اللہ اور صفا و مروہ کا ایک ہی طواف کیا، پھر دونوں سے اس وقت تک حلال نہیں ہوئے، حتی کہ دونوں سے حج کر کے نحر کے دن حلال ہو گئے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 632  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قربانی حجامت کرانے سے پہلے کی اور اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا۔ (بخاری) [بلوغ المرام/حدیث: 632]
632راوئ حدیث:
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ مسور کے میم کے نیچے کسرہ سین ساکن اور واو پر فتحہ ہے۔ مخرمہ میں میم پر فتحہ خا ساکن اور را پر فتحہ ہے۔ زہری قرشی ہیں۔ صاحب فضل لوگوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مکہ منتقل ہو گئے۔ یزید بن معاویہ نے جب 64 ہجری کے آغاز میں مکے کا محاصرہ کیا تو اس وقت نماز پڑھتے ہوئے انہیں منجنیق کا پتھر آ کر لگا اور وہ وفات پا گئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 632