صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
31. باب جَوَازِ الْعُمْرَةِ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ:
باب: حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کا جواز۔
حدیث نمبر: 3009
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانُوا يَرَوْنَ أَنَّ الْعُمْرَةَ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ مِنْ أَفْجَرِ الْفُجُورِ فِي الْأَرْضِ، وَيَجْعَلُونَ الْمُحَرَّمَ صَفَرًا، وَيَقُولُونَ إِذَا بَرَأَ الدَّبَرْ وَعَفَا الْأَثَرْ وَانْسَلَخَ صَفَرْ، حَلَّتِ الْعُمْرَةُ لِمَنِ اعْتَمَرْ، فَقَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ صَبِيحَةَ رَابِعَةٍ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ، فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً، فَتَعَاظَمَ ذَلِكَ عِنْدَهُمْ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْحِلِّ؟ قَالَ: " الْحِلُّ كُلُّهُ ".
عبداللہ بن طاوس نے اپنے والد طاوس بن کیسان سے، انھوں نےحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے فرمایا: (جاہلیت میں) لوگوں کا خیال تھا کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا، زمین میں سب سے براکام ہے۔اور وہ لوگ محرم کے مہینے کو صفر بنا لیا کرتے تھے، اور کہا کرتے تھے: جب (اونٹوں کا) پیٹھ کا زخم مندمل ہوجائے، (مسافروں کا) نشان (قدم) مٹ جائے اورصفر (اصل میں محر م) گزر جائے تو عمرہ والے کے لئے عمرہ کرناجائز ہے۔ (حالانکہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ا اپنے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ چار ذوالحجہ کی صبح کو حج کا تلبیہ پکارتے ہوئے مکہ پہنچے، اور ان (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) کو حکم دیا کہ اپنے حج (کی نیت) کو عمرے میں بدل دیں، یہ بات ان (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) پر بڑی گراں تھی، سب نے بیک زبان کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ کیسی حلت (احرام کا خاتمہ) ہوگی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " مکمل حلت۔"
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (جاہلیت کے دور میں) لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا زمین میں سب سے بڑی برائی سمجھتے تھے، اور وہ محرم کے مہینہ کو صفر قرار دیتے اور کہتے تھے، جب اونٹوں کی پشتوں کے زخم ٹھیک ہو جائیں، اور نقش قدم مٹ جائیں یا زخموں کے نشان مٹ جائیں اور ماہ صفر گزر جائے تو عمرہ کرنے والوں کے لیے عمرہ حلال ہو جاتا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی چار ذوالحجہ کی صبح (مکہ مکرمہ) پہنچے اور انہوں نے حج کا احرام باندھا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں، اس کو عمرہ قرار دینے کا حکم دیا، یہ بات ان کے لیے انتہائی گرانی کا باعث بنی، تو انہوں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کس قسم کا حلال ہونا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مکمل طور پر حلال ہو جاؤ۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1804  
´حج قران کا بیان۔`
مسلم قری سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کا تلبیہ پکارا اور آپ کے صحابہ کرام نے حج کا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1804]
1804. اردو حاشیہ: حج قران کے لیے تلبیہ میں یہ جائز ہے کہ کسی وقت «لبیک بحجة» ‏‏‏‏ کہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1804   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3009  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
بَرَا الدَّبَر:
سفر میں اونٹوں کی پشتوں پر سازوسامان لادنے سے،
ان کی پشتیں چھل جاتی ہیں،
سفر سے واپسی کے بعد کچھ عرصہ آرام ملنے سے وہ زخم مندمل ہو جاتے ہیں۔
(2)
عَفَا الاَثَرَ:
لوگوں اور سواریوں کی آمدورفت سے راستہ پر نشان قدم پڑجاتے ہیں،
اور جب آمد و رفت بند ہو جائے،
تو یہ نقش مٹ جاتے ہیں،
ایک ماہ کا عرصہ گزرنے پر دونوں کام حاصل ہو جاتے ہیں یا مطلب یہ ہےکہ زخم درست ہونے کے بعد ان کے نشان بھی مٹ جاتے ہیں۔
(3)
تَعَاظَم:
انتہائی ناگواری اور گرانی پیدا ہو گئی،
کیونکہ یہ لوگ حج سے پہلے عمرہ کے عادی نہ تھے،
بلکہ اس کو جرم وگناہ تصور کرتے تھے،
اس سے پہلے ذوالقعدہ میں عمرے کیے گئے ہیں،
لیکن ان کے بعد حج نہیں کیا گیا،
اس لیے وہاں ناگواری پیدا نہ ہوئی اور نہ ہی رسم جاہلیت پر زد پڑی۔
فوائد ومسائل:
عرب لوگ جنگ وجدال اور لوٹ مار کے عادی تھے اس لیے مسلسل تین ماہ قتل و غارت اور لوٹ مارسے رکے رہنا ان کے لیے بہت مشکل تھا اس لیے انھوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ حج سے فراغت کے بعد اس کام کو شروع کرنے کے لیے انھوں نے محرم کوصفر بنا ڈالا اور اس میں لوٹ مار کی عادت پوری کر لی۔
اس کے بعد والے مہینہ کو محرم بنا ڈالا اور اس میں عمرہ کر لیتے قرآن مجید نے اس رسم کو نسی کا نام دیا ہے اور اس کو کافرانہ فعل قرار دیا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3009