صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
31. باب جَوَازِ الْعُمْرَةِ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ:
باب: حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کا جواز۔
حدیث نمبر: 3015
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا جَمْرَةَ الضُّبَعِيَّ ، قَالَ: تَمَتَّعْتُ فَنَهَانِي نَاسٌ عَنْ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَأَمَرَنِي بِهَا، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقْتُ إِلَى الْبَيْتِ فَنِمْتُ، فَأَتَانِي آتٍ فِي مَنَامِي، فَقَالَ: " عُمْرَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ وَحَجٌّ مَبْرُورٌ "، قَالَ: فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي رَأَيْتُ، فَقَالَ: " اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ سُنَّةُ أَبِي الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
ابو حمزہ ضبعی نے کہا: میں نے حج تمتع (کا ارادہ) کیا تو (متعدد) لوگوں نے مجھے اس سے روکا، میں (اسی شش و پنج میں) ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور اس معاملے میں استفسارکیا تو انھوں نے مجھے اس (حج تمتع) کا حکم دیا۔کہا پھر میں اپنے گھر لوٹا اور آکر سو گیا، نیند میں دورا ن خواب میرے پاس ایک شخص آیا۔اور کہا (تمھا را) عمرہ قبول اور (تمھا را) حج مبرو (ہر عیب سےپاک) ہے۔انھوں نے کہا میں (دوباراہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حا ضر ہوا اور جو دیکھا تھا۔کہہ سنا یا۔وہ (خوشی سے) کہہ اٹھے (عربی۔۔۔۔۔۔۔۔۔) یہ ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے (تمھا را خواب اسی کی بشارت ہے)
ابو جمرہ ضعبی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، میں نے حج تمتع کا ارادہ کیا، تو لوگوں نے مجھے اس سے روکا، میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو انہیں نے مجھے حج تمتع کرنے کا مشورہ دیا، پھر میں بیت اللہ کی طرف چل پڑا، عمرہ کر کے سو گیا، تو خواب میں میرے پاس آنے والا (فرشتہ) آیا اور کہا، عمرہ قبول ہے، اور حج مبرور (ہر عیب و نقص اور جرم و گناہ سے پاک) ہے، میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر انہیں اپنے خواب سے آ گاہ کیا، انہوں نے کہا، اَللہُ اَکْبَر، اَللہُ اَکْبَر،
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 932  
´حج سے متعلق ایک اور باب۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہو چکا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 932]
اردو حاشہ:
1؎:
مگر حرمت والے مہینوں کا حج کے لیے احرام باندھنے سے کوئی تعلق نہیں ہے،
امام رحمہ اللہ نے ان کا ذکر صرف وضاحت کے لیے کیا ہے تاکہ دونوں خلط ملط نہ جائیں۔
نوٹ:
(سند میں یزید بن ابی زیادضعیف ہیں،
لیکن متابعات وشواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 932   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1790  
´حج افراد کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ عمرہ ہے، ہم نے اس سے فائدہ اٹھایا لہٰذا جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ پوری طرح سے حلال ہو جائے، اور عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہو گیا ہے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ (مرفوع حدیث) منکر ہے، یہ ابن عباس کا قول ہے نہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1790]
1790. اردو حاشیہ:
➊ امام ابن القیم فرماتے ہیں: امام ابو داؤد کا مذکورہ بالا حدیث کو منکر کہنا صحیح نہیں۔کیونکہ یہ مسئلہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ یہ جرح در اصل اگلی حدیث (1791پر ہے۔ (عون المعبود)
➋ چونکہ قبل از اسلام لوگ ایام حج میں عمرہ کرنا کبیرہ گناہ سمجھتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی ممانعت کرتے ہوئے شریعت اسلام کی بات تاکید کے ساتھ نافذ فرمائی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1790