صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
37. باب اسْتِحْبَابِ دُخُولِ مَكَّةَ مِنَ الثَّنِيَّةِ الْعُلْيَا وَالْخُرُوجِ مِنْهَا مِنَ الثَّنِيَّةِ السُّفْلَى وَدُخُولِ بَلْدَةٍ مِنْ طَرِيقٍ غَيْرِ الَّتِي خَرَجَ مِنْهَا:
باب: مکہ مکرمہ میں دخول بلند راستے سے اور خروج نشیب سے مستحب ہے۔
حدیث نمبر: 3042
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ جَمِيعًا عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمَّا جَاءَ إِلَى مَكَّةَ، دَخَلَهَا مِنْ أَعْلَاهَا، وَخَرَجَ مِنْ أَسْفَلِهَا ".
سفیان بن عیینہ نے ہشام بن عروہ سے انھوں نے اپنے والد (عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے) انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ آئے تو اس کی بالائی جا نب سے اس میں دا خل ہوئے اور زیریں جا نب سے آپ (مکہ سے) باہر نکلے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تک پہنچے، تو اس کے بالائی حصہ سے داخل ہوئے اور نشیبی یا پست حصہ سے نکلے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 853  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے مکہ میں بلندی کی طرف۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ آتے تو بلندی کی طرف سے داخل ہوتے اور نشیب کی طرف سے نکلتے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 853]
اردو حاشہ:
1؎:
بلندی سے مراد ثنیہ کداء ہے جو مکہ مکرمہ کی مقبرۃ المعلیٰ کی طرف ہے،
اور بلند ہے اور نشیب سے مراد ثنیۃ کدی ہے جو باب العمرۃ اور باب ملک فہد کی طرف نشیب میں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 853   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1869  
´مکہ میں داخل ہونے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں داخل ہوتے تو اس کی بلندی کی طرف سے داخل ہوتے اور اس کے نشیب سے نکلتے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1869]
1869. اردو حاشیہ: آمد ورفت کے راستوں میں اختلاف کے اندر شاید وہی حکمت پنہاں ہے۔جو نماز عید اور عرفات کو جانے آنے میں فرق رکھنے میں ملحوظ ہے یعنی مقامات عبادت کی کثرت کہ انسان کو قیامت کے دن زمین کے ان حصوں کی شہادت خیر بھی حاصل ہوجائے۔(تیسر العلام شرح عمدۃ الاحکام]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1869