صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
41. باب اسْتِحْبَابِ تَقْبِيلِ الْحَجَرِ الأَسْوَدِ فِي الطَّوَافِ:
باب: طواف میں حجر اسود کو بوسہ دینے کا استحباب۔
حدیث نمبر: 3069
حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ هِشَامٍ، وَالْمُقَدَّمِيُّ ، وَأَبُو كَامِلٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، كلهم عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ: خَلَفٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ ، قَالَ: رَأَيْتُ الْأَصْلَعَ يَعْنِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ، وَيَقُولُ: " وَاللَّهِ إِنِّي لَأُقَبِّلُكَ وَإِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ، وَأَنَّكَ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَكَ مَا قَبَّلْتُكَ "، وَفِي رِوَايَةِ الْمُقَدَّمِيِّ، وَأَبِي كَامِلٍ: رَأَيْتُ الْأُصَيْلِعَ.
ہمیں خلف بن ہشام، مقدمی، ابوکامل، اورقتیبہ بن سعید سب نے حماد سے حدیث بیان کی، خلف نے کہا: ہمیں حماد بن زید نے عاصم احول سے حدیث بیان کی، انھوں نےعبداللہ بن سرجس سے روایت کی، کہا: میں نے سرکےاگلے حصے سے اڑے ہوئے بالوں والے، یعنی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کودیکھا، وہ حجر اسود کو بوسہ دیتے تھے اور کہتے تھے: اللہ کی قسم!میں تجھے بوسہ دےرہاہوں، اور بے شک میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، تو نقصان پہنچاسکتا ہے نہ نفع، اگر ایسا نہ ہوتا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیے دیکھاتھا، تومیں تجھے بوسہ نہ دیتا۔ مقدمی اور ابو کامل کی روایت میں (اڑے ہوئے بالوں والے کی بجائے) "آگے سے چھوٹی سی گنج والے" کودیکھا کے الفاظ ہیں۔
عبداللہ بن سرجس بیان کرتے ہیں، میں نے اَصْلَعَ یعنی عمر بن خطاب رضی الله تعالی عنہ کو حجر اسود کو بوسہ دیتے دیکھا، اور وہ کہہ رہے تھے، اللہ کی قسم! میں تجھے بوسہ دے رہا ہوں، جبکہ میں خوب جانتا ہوں، تو ایک پتھر ہے، اور یقینا نہ تو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع، اگر میں نے تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے بوسہ نہ دیتا، مقدمی اور ابو کامل کی روایت میں، اَصْلَعَ کی بجائے اُصَيْلِعَ ہے (جس کے سر کے اگلے حصہ کے بال گر گئے ہوں، اسے اَصْلَعَ کہتے ہیں)۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2943  
´حجر اسود کے استلام (چومنے یا چھونے) کا بیان۔`
عبداللہ بن سرجس کہتے ہیں کہ میں نے «اصیلع» یعنی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو چوم رہے تھے، اور کہہ رہے تھے: میں تجھے چوم رہا ہوں حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ تو ایک پتھر ہے، جو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ فائدہ، اور میں نے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے نہ چومتا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2943]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
طواف کعبہ کے دوران میں حجر اسود کو بوسہ دینا درست ہے لیکن اس مقصد کے لیے دھکم پیل کرنا جائز نہیں۔
اگر آسانی سے بوسہ دینا ممکن ہوتو یہ بہتر ہےورنہ چھڑی یا ہاتھ حجر اسود کو لگا کر اسے بوسہ دیا جائے۔
اگر چھڑی یا ہاتھ بھی حجر اسود کو لگانا مشکل ہو تو حجر اسود کی طرف اشارہ کر کے آگے گزرجانا چاہیے۔
اس صورت میں اپنے ہاتھ کو بوسہ نہیں دیا جائے۔

(2)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مذکورہ بات اس لیے یاد فرمائی کہ توحید اور اتباع کا مسئلہ واضح ہوجائے۔
مشرکین بتوں کو یا بزرگوں سے منسوب چیزوں کو حصول برکت کے لیے چھوتے تھےاورسمجھتے تھےکہ انھیں چھونے سے حاجتیں پوری ہوسکتی ہیں۔
مسلمانوں کے حجر اسود کے چھونے سے یہ شبہ نہیں ہوناچاہیے کہ پتھر کی پوجا کرتے ہیں بلکہ یہ تو سرف اتباع سنت کے طور پر کرتےہیں۔

(3)
حجر اسود کے سوا کعبہ کا کوئی اور حصہ چومنا مناسب نہیں اس لیے کعبہ کی دیواروں کو یا کعبہ شریف کے دروازے کی چوکھٹ کو یا مقام ابراہیم کی جالی کو چومنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

(4)
رکن یمانی کو بھی چومنا مناسب نہیں صرف ہاتھ لگانا سنت ہے۔
طواف کے دوران میں آسانی سے ہوسکے تو رکن یمانی کو ہاتھ لگایا جائے ورنہ اشارہ وغیرہ کرنے کی ضرورت نہیں ایسے ہی آگے گزر جائیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2943   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3069  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کا طرز عمل یہ ہونا چاہیے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کی اقتدا اور اتباع کرے،
اس فعل کی حکمت اور فلاسفی اس کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے،
چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کو بوسہ دیا ہے اس لیے ہم اس کو بوسہ دیتے ہیں،
رکن یمانی کو ہاتھ لگایا ہے بوسہ نہیں دیا،
اس لیے اس کو صرف ہاتھ لگایا جاتا ہے بوسہ نہیں دیا جاتا لیکن حجر اسود کو بوسہ دینے سے نیک لوگوں اور بزرگوں کے ہاتھ پاؤں کو بوسہ دینے کے جائز ہونے کے لیے استدلال کرنا درست نہیں ہے اگریہ کام درست ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پاؤں ہرملاقات پر چومتے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا یہ فعل تواتر قولی اور تواتر عملی سے ثابت ہوتا،
نیز اس سے ذاتی اورعطائی قدرت پر استدلال بھی بے محل ہے۔
کیونکہ اگراللہ تعالیٰ نے کسی چیز میں کوئی نفع رکھ دیا ہے۔
تو اس کا یہ معنی نہیں ہے نفع کی صلاحیت اس کو عطا کر دی ہے مثلاً اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنا،
جنت میں جانے کا باعث ہے تواس کا یہ معنی کیسے ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو نفع پہنچانے کی قدرت دے دی گئی ہے۔
اس لیے یہ استدلال کس قدرحیران کن ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نفع رسانی سے کون انکار کر سکتا ہے کہ انسان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہے تو جنت کا مستحق ہو جاتا ہے،
بلکہ اس وقت تک کوئی شخص جنت میں جانے کا مستحق نہیں ہو گا،
جب تک وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کہے گا،
اللہ اکبر۔
جن کے نام کی نفع رسانی کا یہ عالم ہے ان کی ذات کی نفع رسانی کا کیا عالم ہو گا اور میں تو یہ کہتا ہوں کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نفع رسانی کا انکار کرتا ہے وہ آپ کا نام نہ لے اور ہمیں جنت میں جا کر دکھائے۔
(شرح صحیح مسلم سعیدی ج3 ص: 501)
کوئی اللہ کے اس بندے سے پوچھے جنت میں داخلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان کا نتیجہ ہے یا آپ کا نام لینا ہی جنت میں داخلہ کا باعث ہے اگر کوئی انسان دن میں ہزار مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی تسبیح پڑھے،
لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لائے تو کیا وہ جنت میں داخل ہو سکے گا (ابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر کٹھن اورمشکل موقعہ پر ساتھ دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرطرح خدمت کی اس کو جنت میں داخلہ نہ مل سکا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تسلیم ہے۔
(صحیح مسلم ج 1ص 835۔
)

بہرحال یہ ذاتی اور عطائی کی تقسیم محض ایک سراب ہے جس سے جاہلوں اورناواقفوں کو پھانسا جاتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3069