صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
43. باب بَيَانِ أَنَّ السَّعْيَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ رُكْنٌ لاَ يَصِحُّ الْحَجُّ إِلاَّ بِهِ:
باب: صفا و مروہ کے درمیان سعی حج کا رکن ہے اس کے بغیر حج نہیں۔
حدیث نمبر: 3079
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَ: قُلْتُ لَهَا: إِنِّي لَأَظُنُّ رَجُلًا لَوْ لَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ مَا ضَرَّهُ، قَالَتْ: لِمَ؟ قُلْتُ: لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، فَقَالَتْ: مَا أَتَمَّ اللَّهُ حَجَّ امْرِئٍ وَلَا عُمْرَتَهُ لَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ "، وَلَوْ كَانَ كَمَا تَقُولُ لَكَانَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا؟ وَهَلْ تَدْرِي فِيمَا كَانَ ذَاكَ إِنَّمَا كَانَ ذَاكَ؟ أَنَّ الْأَنْصَارَ كَانُوا يُهِلُّونَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ لِصَنَمَيْنِ عَلَى شَطِّ الْبَحْرِ، يُقَالُ لَهُمَا: إِسَافٌ، وَنَائِلَةُ، ثُمَّ يَجِيئُونَ فَيَطُوفُونَ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ يَحْلِقُونَ، فَلَمَّا جَاءَ الْإِسْلَامُ كَرِهُوا أَنْ يَطُوفُوا بَيْنَهُمَا، لِلَّذِي كَانُوا يَصْنَعُونَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، قَالَتْ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158، إِلَى آخِرِهَا، قَالَتْ: فَطَافُوا ".
ہمیں ابو معاویہ نے ہشام بن عروہ سے خبر دی، انھوں نے اپنے والد (عروہ بن زبیر) سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی: میرا خیال ہے کہ اگر کوئی شخص صفا مروہ کے مابین سعی نہ کرے تو اسے کوئی نقصان نہیں (اس کا حج وعمرہ درست ہوگا۔) انھوں نے پوچھا: وہ کیوں؟میں نے عرض کی: کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: " بے شک صفا مروہ اللہ کی نشانیوں میں سےہیں، "آخرتک، " (پھر کوئی حج کرے یا عمرہ تو اس کو گناہ نہیں کہ وہ ان دونوں کاطواف کرے اور جس نے شوق سے کوئی نیکی کی تو اللہ قدردان ہے سب جانتا ہے۔) "انھوں نےجواب دیا: وہ شخص صفا مروہ کے مابین سعی نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اس کا حج اور عمرہ مکمل نہیں فرماتا۔اگر بات اسی طرح ہوتی جس طرح تم کہہ رہے ہوتو (اللہ کافرمان) یوں ہوتا: "اس شخص پر کوئی گناہ نہیں جواب دونوں کاطواف نہ کرے۔" کیا تم جانتے ہوکہ یہ آیت کس بارے میں (نازل ہوئی) ہوئی تھی؟بلاشبہ جاہلیت میں انصار ان دو بتوں کے لئے احرام باندھتے تھے جو سمندر کے کنارے پر تھے، جنھیں اساف اور نائلہ کہاجاتا تھا، پھر وہ آتے اور صفا مروہ کی سعی کرتے، پھر سر منڈا کر (احرام کھو ل دیتے)، جب اسلام آیا تو لوگوں نے جاہلیت میں جو کچھ کر تے تھے، اس کی وجہ سے ان دونوں (صفا مروہ) کا طواف کرنا بُرا جانا، کیونکہ وہ جاہلیت میں ان کا طواف کیاکرتے تھے۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) فرمایا: اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی: "بلاشبہ صفا مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔"آخر آیت تک۔فرمایا: تو لوگوں نے (پھر سے ان کا) طواف شروع کردیا۔
عروہ بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعلیٰ عنہ سے عرض کیا، میرا خیال ہے، اگر کوئی آدمی صفا اور مروہ کی سعی نہ کرے، تو یہ چیز اس کے لیے نقصان دہ نہیں ہے، انہوں نے پوچھا، کیوں؟ میں نے کہا، کیونکہ اللہ کا فرمان ہے: (صفا اور مروہ اللہ کے دین کے شعار ہیں، جو شخص حج یا عمرہ کرے، تو اس پر ان کا طواف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔) (سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 178)
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1901  
´صفا اور مروہ کا بیان۔`
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا اور میں ان دنوں کم سن تھا: مجھے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «إن الصفا والمروة من شعائر الله» کے سلسلہ میں بتائیے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی ان کے درمیان سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: ہرگز نہیں، اگر ایسا ہوتا جیسا تم کہہ رہے ہو تو اللہ کا قول «فلا جناح عليه أن يطوف بهما» کے بجائے «فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما» تو اس پر ان کی سعی نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہوتا، یہ آیت دراصل انصار کے بارے میں اتری، وہ مناۃ (یعنی زمانہ جاہلیت کا بت) کے لیے حج کرتے تھے اور مناۃ قدید ۱؎ کے سامنے تھا، وہ لوگ صفا و مروہ کے بیچ سعی کرنا برا سمجھتے تھے، جب اسلام آیا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «إن الصفا والمروة من شعائر الله» ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1901]
1901. اردو حاشیہ: قرآن مجید کو محض لغت کی بنیاد پر سمجھنے کی کوشش کرنا اور احادیث صحیحہ سے اعراض کرنا بہت بڑی جہالت ہے قرآن مجید کا وہی فہم معتبر ہے۔اور اسلام کی حقیقی تعبیر وہی ہے۔جو سلف صالحین (صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین)نے کی ہے۔ شان نزول جو صحیح احادیث و اسانید سے ثابت ہیں۔ ان سے استفادہ کرنا بھی از حد ضروری ہے۔جیسے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وضاحت فرمائی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1901   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3079  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اساف اور نائلہ دو بت تھے جوصفا اور مروہ پر رکھے گئے تھے،
بعض انصاری قبائل صفا اور مروہ کا طواف ان کی خاطر کرتے تھے جب اسلام آ گیا انہوں نے خیال کیا اگر اب ہم نےان کا طواف کیا تو یہی سمجھا جائےگا کہ ہم جاہلی رسم کے مطابق یہ کام کر رہے ہیں اس لیے ہمیں یہ کام نہیں کرنا چاہیے ان کو ساحل سمندر پر واقع قراردینا راوی کا وہم ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مطلب یہ ہے کہ آیت میں صفا اورمروہ کے طواف کرنے والے سے گناہ کو ساقط اور دور قرار دیا گیا ہے اگر ان کےطواف کی ضرورت نہ ہوتی تو طواف نہ کرنے والے سے گناہ اٹھانا چاہیے تھا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ۔
اور محدثین کے نزدیک صفا اور مروہ کے درمیان سعی حج اور عمرہ کا رکن ہے جس کے بغیر نہ عمرہ ہو سکتا ہے اور نہ حج لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔
سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سعی حج اورعمرہ کے لیے واجب ہے فرض اور رکن نہیں ہے اس لیے دم (قربانی)
سے اس کی تلافی ہو جائے گی اور حج ہو جائے گا اورامام ابن قدامہ کے نزدیک امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہی قول ہے بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین،
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ،
عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ،
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہم اور ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نہ یہ رکن ہے اور نہ واجب سنت ہے۔
صحیح حدیث کا تقاضا یہی ہے کہ یہ رکن ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3079